کسی بھی ریاست کی ترقی کا اس کے معاشی استحکام کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جو ریاستیں معاشی اعتبار سے مستحکم ہوتی ہیں‘ وہی دنیا میں ایک نمایاں مقام اور حیثیت رکھتی ہیں اور اقوام عالم میں اُن کو ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ نبی کریمﷺ‘ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ریاستِ مدینہ کے معاشی استحکام کیلئے نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس وقت مکہ شہر کیلئے دعا مانگی تو آپ علیہ السلام نے جہاں اس شہر کے پُرامن ہونے کی دعا مانگی‘ وہیں اس کے رہنے والوں کیلئے پھلوں اور فراوانیٔ رزق کی بھی دعا مانگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 126 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جب دعا کی ابراہیم نے‘ اے میرے رب! بنا دے اس (جگہ) کو امن والا شہر اور رزق دے اس کے باشندوں کو‘ہر قسم کے پھلوں کا‘ ان کو جو ایمان لائیں ان میں سے اللہ پر اور روزِ آخر پر‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس شہر میں آباد کیا تو اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی دعا مانگی۔ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 37 میں ارشاد ہوا ''اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد‘ جو اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے‘ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے‘ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معیشت کی کس قدر اہمیت ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے جہاں مادی تدابیر کو اختیارکیا جاتا ہے وہیں روحانی اعتبار سے بھی بہت سی تدابیر ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے انفرادی و اجتماعی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ تقویٰ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے اپنے آپ کوگناہوں سے دور کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ طلاق کی آیات 2 تا 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو شخص ڈرتا رہے گا اللہ سے ‘ پیداکر دے گا اللہ اس کے لیے نکلنے کی کوئی راہ۔ اور رزق دے گا اسے ایسے طریقے سے جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔
2۔ توکل: جب انسان کا بھروسہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس کیلئے کافی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ طلاق کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو بھروسہ کرے اللہ پر سو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ بلاشبہ اللہ پورا کرکے رہتا ہے اپنا ارادہ۔ بیشک مقرر کر رکھی ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر‘‘۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی انسان کیلئے کافی ہو جاتا ہے تو اس کے رزق کا بندوبست بھی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اُسی طرح رزق ملے گا جیسے پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں‘‘۔
3۔ انفاق فی سبیل اللہ: جب انسان اپنے مالک و خالق کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۂ سبا کی آیت 39 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے! کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دیتا ہے‘ تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘۔ اسی حوالے سے احادیث طیبہ میں ایک بڑا خوبصورت واقعہ مذکور ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس شخص کو ویرانے میں بھی رزق عطا فرماتے تھے جو اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتا تھا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''ایک دفعہ ایک شخص زمین میں ایک صحرائی ٹکڑے پر کھڑا تھا۔ اس نے ایک بادل میں آواز سنی: ''فلاں کے باغ کو سیراب کرو‘‘ وہ بادل ایک جانب ہٹا اور ایک پتھریلی زمین میں اپنا سارا پانی انڈیل دیا۔ پانی کے بہائو والی ندیوں میں سے ایک ندی نے وہ سارا پانی اپنے اندر سمو لیا۔ وہ شخص پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو وہاں (کچھ آگے) ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کدال سے پانی کا رُخ ( اپنے باغ کی طرف) پھیر رہا تھا۔ اس نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے بتایا: فلاں‘ وہی نام جو اس نے بادل میں سنا تھا۔ پھر اس نے پوچھا: تم نے مجھ سے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں نے اس بادل میں‘ جس کا یہ پانی ہے‘ ( کسی کو) یہ کہتے سنا تھا کہ فلاں کے باغ کو سیراب کرو‘ اس نے تمہارا نام لیا تھا۔ تم ایسا کیا (خاص) کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا: تم نے یہ بات کہہ دی ہے (تو میں تمہیں بتا دیتا ہوں) اس باغ سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے‘ میں اس پر نظر ڈال کر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کر دیتا ہوں‘ ایک تہائی میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی (باغ کی دیکھ بھال) میں لگا دیتا ہوں‘‘۔
4۔ توبہ و استغفار: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ رزق بھی عطا فرماتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے سورۂ نوح کی آیات 10 تا 12 میں حضرت نوح علیہ السلام کی اس بات کو کچھ یوں بیان کیا ''اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشوائو (اور معافی مانگو) وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔ اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا‘‘۔
5۔ نکاح: جب انسان اپنی پاکدامنی کے تحفظ کیلئے نکاح کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرماتے ہیں۔ سورۂ نور کی آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوا ''تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں‘ ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
6۔ ہجرت: جب انسان دین کو بچانے کیلئے اپنے دیس کو خیرباد کہتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی نیت کی وجہ سے اس کے رزق میں اضافہ فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 100 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا‘ وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی‘ اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف نکل کھڑا ہوا‘ پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقینا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا‘ اور اللہ بڑا بخشنے والا‘ مہربان ہے‘‘۔
7۔ حج وعمرہ : مسلسل حج و عمرہ کرنے سے بھی انسان کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سنن نسائی میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ مسلسل کرتے رہو۔ یقینا یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح زائل کر دیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے‘ سونے اور چاندی کے میل کچیل کو زائل کر دیتی ہے۔ اور حج مبرور کا ثواب تو جنت سے کم نہیں‘‘۔
8۔ اللہ کے دین کا قیام: اگر زمین پر اللہ کے دین کو نافذ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے رزق کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر66 میں ارشاد ہوا ''اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے‘ ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے‘‘۔ اگر مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کیا جائے تو انفرادی و اجتماعی معیشت کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انفرادی اور ملکی معیشت میں استحکام کیلئے ہمیں کتاب و سنت میں مذکور تدابیر پر عمل کرنے کی توفیق دے‘ آمین!