پاکستان میں کئی عشروں سے مسلسل سنگین نوعیت کے جرائم کے ارتکاب اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں پُرتشدد کارروائیوں کے بارے بھی سننے کو ملتا رہتا ہے۔ جرم وسزا کے کمزور نظام کی وجہ سے معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے‘ اس لیے کہ مجرم بالعموم سنگین نوعیت کے جرم کے ارتکاب کے باوجود بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اکثر یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اگر کسی شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگ جائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متحرک ہونے سے پہلے ہی عوام کا مشتعل ہجوم اس شخص کو ''کیفرِ کردار‘‘ تک پہنچانے کے لیے آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ ان مواقع پر اگر لوگوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کی بھی جائے تو وہ اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ حالیہ دنوں میں ظلم وتشدد کے دو واقعات سننے کو ملے۔
ضلع قصور کی تحصیل کوٹ رادھا کشن میں گزشتہ دنوں مبینہ طور پر احمد نامی ایک بچے کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس سے بچہ شدید زخمی ہو گیا۔ اس کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا مگر کئی روز تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد وہ بچہ دم توڑ گیا۔ بچے کے اہلِ خانہ سے ملنے کے لیے اتوار کو میں کوٹ رادھا کشن گیا تو پورا خاندان اس سانحے پر انتہائی مغموم تھا اور اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اس ظلم کا مداوا ہونا چاہیے اور زیادتی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ وہ اس بات پر دل گرفتہ تھے کہ اس سلسلے میں نہ تو مقامی سیاسی رہنمائوں نے کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خاطرخواہ تعاون کیا۔
اسی طرح دوسرا المناک واقعہ سوات میں پیش آیا کہ جہاں ایک شخص پر قرآنِ مجید کی توہین کا الزام لگا۔ اس شخص کو پولیس نے اپنے تصرف میں لیا لیکن اس کے باوجود مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کر کے ملزم کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا اور بعد ازاں اس کی میت کو بھی جلا دیا۔ اس سانحے پر ملک بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اگر ملک میں توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں تو لوگوں کو خود قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ اس طرح کے واقعات وقفے وقفے سے سننے کو ملتے رہتے ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی۔ اگر اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے معاشرے کے مؤثر طبقات اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھائیں تو معاشرے میں سے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں دو اہم تجاویز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ علما‘ سیاستدان اور اساتذہ کی ذمہ داریاں: علما‘ سیاستدان اور اساتذہ لوگوں کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کو اس حوالے سے عوام الناس کی ذہن سازی کرنی چاہیے کہ جرم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ اس کا ارتکاب کرنے والے کو سزا دینے کا اختیار فقط ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی بدنیتی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں وہ خود جوابدہ ہو گا۔ علما‘ اساتذہ اور سیاستدانوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظات کے باوجود قانونی راستے کو اختیار کرنے کی اہمیت کو اجاگر کریں تاکہ معاشرے کو انارکی کی لپیٹ میں آنے سے بچایا جا سکے۔
2۔ قانون نافذکرنے والے اداروں کی ذمہ داریاں: ہمارے معاشرے میں جرم وسزا کا نظام غیر معمولی طوالت کا شکار ہے۔ کئی مرتبہ بے گناہ افراد طویل عرصہ جیل میں گزار دیتے ہیں اور پھر جا کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث نہ تھے۔ اسی طرح کئی مرتبہ مجرم کیس کی غیر معمولی طوالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ سفارش‘ رشوت یا اثر ورسوخ کے ذریعے ریلیف حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے برطانیہ اور سعودی عرب کے نظام سے استفادہ کرنا چاہیے کہ جہاں جرائم پر ٹرائل بڑی صراحت اور سرعت سے کیا جاتا ہے۔ بے گناہ افراد کو جلد از جلد ریلیف مل جاتا ہے اور مجرموں کا مؤثر طریقے سے احتساب ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سیرتِ رسولﷺ سے بھی رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ جب سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا جاتا تھا تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریمﷺ کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ مہیا نہیں کر سکتا‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جائو اور ان کا دودھ وغیرہ پیو‘ تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں سے چلے گئے اور صدقہ کے اونٹوں کا دودھ پی کر تندرست ہو گئے مگر بعد ازاں وہ اسلام سے پھر گئے اور چرواہے کو قتل کرنے کے بعد اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے۔ ایک شخص نے اس کی خبر آنحضرتﷺ کو دی تو آپﷺ نے ان کی تلاش کے لیے سوار دوڑائے۔ دوپہر سے پہلے ہی وہ افراد پکڑ لیے گئے۔ ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے گئے اور پھر آپﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ (انہوں نے چرواہے کو بھی اسی طرح قتل کیا تھا‘ جس کا بدلہ انہیں دیا گیا)۔ ابوقلابہ نے کہا (ان کے جرائم یہ تھے) کہ انہوں نے قتل کیا تھا‘ چوری کی تھی‘ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی تھی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا‘ اس کے چاندی کے زیورات چھین لیے اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے آنحضرتﷺ کے پاس لائے تو اس میں ابھی چند سانسیں باقی تھیں مگر وہ بول نہیں سکتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ فلاں نے؟ فلاں نے؟ اس کے سامنے کئی نام لیے گئے مگر اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ پھر نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔ پھر اس (قاتل) یہودی کو نبی کریمﷺ کے پاس لایا گیا اور اس سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی یہاں تک کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا‘ چنانچہ اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا‘‘۔
خلفائے راشدین بھی نبی کریمﷺ کے اسی طرزِ عمل پر چلتے رہے‘ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس بات کو واضح کیا کہ اگر کسی بے گناہ آدمی کے قتل میں ایک پورا گروہ بھی ملوث ہو تو سب کے سب لوگوں کو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصیل نامی ایک یمنی لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار آدمیوں نے اس لڑکے کو قتل کیا تھا اور سب کو قصاص میں قتل کیا گیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر سارے اہلِ صنعا (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو (قصاص میں) قتل کرا دیتا۔
اگر مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو معاشرہ بدامنی اور جرائم سے پاک ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سرزمین پاکستان کو شرپسندوں کے شر سے محفوظ فرما کر امن و سکون کا گہوارہ بنا دے‘ آمین!