ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں پنشن کا موجودہ نظام طویل عرصے تک چلنے کے لیے پائیدار نہیں۔ مالی سال 2024ء میں قومی پنشن کی لاگت 20 کھرب تک پہنچنے کی توقع ہے اور اگر اس سسٹم میں اصلاحات نہیں کی جاتیں تو یہ لاگت اگلے دس سال میں 100 کھرب تک پہنچ سکتی ہے۔2002-03ء میں یہ لاگت 25 ارب روپے تھی جو 20 برسوں میں 15 کھرب سے زائد ہو چکی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ماضی میں بھی متعدد مرتبہ پاکستان کے کمزور پنشن اور سکیورٹی سسٹم کی نشاندہی کی لیکن پاکستانی سرکار نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ہمارے یہاں زیادہ تر سرکاری عہدوں پر غیر فنڈ شدہ پنشن ماڈل رائج ہے اور ملازمین کی پنشن کی مالی اعانت ٹیکس آمدنی سے کی جاتی ہے۔ دوسری جانب نجی شعبے کے بعض کارکنوں اور مزدور یونینوں کے اراکین کے لیے فنڈڈ پنشن دستیاب ہے‘ تاہم آبادی کا ایک بڑا حصہ پنشن کوریج سے محروم ہے اور ان کا مکمل انحصار فیملی سپورٹ سسٹم پر ہے۔ پنشن فنڈز کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے لیے یہ معاملہ دردِ سر بن چکا ہے۔ اس کی وجہ منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی کی گئی رقم کو پوری دنیا کے بڑے اور منافع بخش منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس پیسے سے رئیل اسٹیٹ‘ شاپنگ مالز‘ زراعت‘ تجارت‘ سٹاک ایکسچینج اور بینکوں وغیرہ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں پنشن دینے کے بعد بھی رقم بچ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ملائیشیا کی طرز پر پنشن فنڈ کو چلانے کا منصوبہ متعارف کرایا تھا لیکن وہ منصوبہ سیاست کی نذر ہو گیا۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سرکار پر پنشن فنڈ بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ جس ملک میں سود کی ادائیگی کُل ٹیکس آمدن سے زیادہ ہو جائے اور وہ ملک پنشن بھی ٹیکس آمدن سے ادا کر رہا ہو تو اس کے مستقبل کا فیصلہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت حکومت کی توجہ بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے نئی کمیٹیاں اور کونسلز بنانے پر زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم نے نو رکنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کی تشکیل دے دی ہے اور فنانس ڈویژن نے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ وزیراعظم اس کونسل کی سربراہی کریں گے‘ جبکہ اس میں جہانگیر ترین‘ ثاقب شیرازی اورشہزاد سلیم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کونسل معیشت کا جائزہ لے کر درستی و اصلاح کے اقدامات تجویز کرے گی اور مختلف سبسڈیز‘ مالیاتی تبدیلیوں کا جائزہ اور معیشت کی بہتری کی خاطر پالیسی سازی کے لیے سفارشات کرے گی۔ وزیراعظم نئے مالی سال کے بجٹ اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے بھی کونسل سے مشاورت کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات کے حوالے سے بھی اس کونسل میں مشاورت اور اہم تجاویز سامنے آنے کا امکان ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ماضی میں اس طرح کی کونسلز نے کون سے نمایاں کارنامے سرانجام دیے؟ عمومی طور پر اس طرح کی کونسلز دوستوں اور اتحادیوں کو نوازنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ برآمدی شعبے کی صنعتوں کے لیے ٹیرف ریشنلائزیشن کے حوالے سے حکمت عملی فی الفور تیار کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ ہر طرح کی سبسڈی اور رعایت ختم کر دی جائے گی‘ خصوصی طور پر انڈسٹری کو کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی۔ ان بیانات اور زمینی حقائق کے بعد یہ جاننا مشکل ہو رہا ہے کہ وزیراعظم صاحب انڈسٹری سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کریں گے یا آئی ایم ایف کے ساتھ۔
دنیا کے کئی ممالک کے صحافتی اداروں کی مشترکہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں ہزاروں پاکستانی سیاستدان‘ سرمایہ داروں اور متعدد سرکاری افسران کے نام شامل ہیں۔ 17 ہزار پاکستانیوں کے پاس دبئی میں 23 ہزار جائیدادیں ہیں جن کی مالیت 12 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ رقم آئی ایم ایف کے حالیہ قرض سے چار گنا زیادہ ہے۔ غیر ملکیوں کی دبئی میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ قریب دو دہائیوں سے دبئی میں آنے والے سرمایے سے متعلق کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار بغیر کسی تردد کے پیسے لگاتے رہے۔ تاہم پچھلے دو برسوں میں صورتحال تبدیل ہوئی ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی پابندیوں کے باعث اب متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری سے قبل وہاں آنے والے غیر ملکیوں کے لیے آمدنی کے ذرائع سے متعلق معلومات فراہم کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے‘ لیکن اب بھی قوانین میں کئی سقم پائے جاتے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ بہت سے بااثر پاکستانیوں کو اپنی دولت دبئی میں پارک کرنے میں آسانی رہتی ہے کیونکہ حوالہ اور ہنڈی جیسے غیر قانونی ذرائع سے پاکستان سے رقم دبئی منتقل کرنا کافی آسان ہے۔ یہی نہیں بلکہ سمندر کے راستے لانچوں کے ذریعے منی لانڈرنگ بھی ایک تلخ حقیقت رہی ہے۔ اس سے متعلق سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں رپورٹس بھی جمع کرائی گئیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ دبئی میں سرمایہ کاری پر کافی اچھا منافع مل رہا ہے‘ جبکہ ٹیکس ریٹ بھی کافی کم ہے۔ دبئی میں پرسنل ٹیکس‘ کیپٹل گین ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس کا اطلاق غیر ملکی شہریوں پر نہیں ہوتا۔ ایسے میں سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے کا بھرپور ثمر ملتا ہے۔ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں مختلف سرمایہ کاروں کی ترجیحات کے مطابق جائیداد کی متنوع رینج ہے۔ اگر آپ پُرتعیش وِلاز‘ اعلیٰ درجے کے اپارٹمنٹس‘ واٹر فرنٹ پراپرٹیز یا تجارتی جگہوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو دبئی میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ یہ تنوع سرمایہ کاروں کو اپنے بجٹ‘ طرزِ زندگی اور سرمایہ کاری کے اہداف کے مطابق مکمل سہولت فراہم کرتا ہے۔ جیسا کہ دبئی لیکس سے ظاہر ہے‘ ان مواقع سے متمول پاکستانیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف کالا دھن رکھنے والوں ہی نے دبئی میں پراپرٹیز خرید رکھی ہیں‘ ایسے پاکستانیوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے قانونی طریقوں سے دولت کمائی اور سٹیٹ بینک کے ذریعے اسے دبئی منتقل کر کے وہاں سرمایہ کاری کی۔ دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادیں کوئی نئی بات نہیں لیکن ان معاملات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ ان تمام 17 ہزار پاکستانیوں کی آمدن کا ذریعہ کیا تھا اور انہوں نے رقم دبئی کیسے منتقل کی۔ امریکہ میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی امریکی شہری پوری دنیا کے کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کھلواتا ہے تو اس کی مکمل معلومات ریاست کو فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ امریکی حکومت یہ جان سکے کہ امریکی شہریوں کے غیر ملکی بینک اکائونٹس میں موجود رقم ان کے ٹیکس گوشواروں سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ یہ اقدام منی لانڈرنگ کے ذریعے ڈالر امریکہ سے باہر جانے سے روکنے کے لیے ہے۔ پاکستان بھی متحدہ عرب امارات سے اس طرح کا معاہدہ کر سکتا ہے‘ جس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔