اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ڈیجیٹل دہشت گردی اور ہماری ذمہ داریاں

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ نو مئی کا سیاہ باب رقم کرنے والوں سے کوئی سمجھوتا ہوگا نہ ڈیل‘ اشتعال انگیزیوں کا جواب نہ دینے کو ہماری کمزور ی اور ہمارے صبر کو لامحدود نہ سمجھا جائے۔ دشمن قوتیں اور ان کے سرپرست جھوٹ‘ جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی کر رہے ہیں مگر قوم کی حمایت سے ان تمام قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔ بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں اور چیلنجوں کا احاطہ کیا جائے تو سماجی میڈیا اور انٹرنیٹ کے فروغ کو سرفہرست رکھا جائے گا۔ دنیا بھر میں ابلاغیات کے تیز رفتار ذرائع نے جہاں سہولت پیدا کی ہے‘ وہیں حکومتوں اور والدین کے لیے نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ دنیا کا ہر خطہ‘ ہر ملک اور ہر فرد ان چیلنجوں سے اپنے اپنے طور پر نبرد آزما ہے۔ ہمسایہ ملک چین اور عرب ممالک میں ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی آئے روز اس حوالے سے نئے قوانین وضع کیے جا رہے ہیں۔ 20 اپریل کو امریکی کانگریس اور 24 اپریل کو امریکی سینیٹ کا ایک معروف سوشل میڈیا ایپ پر پابندی کا بل منظور کرنا اور فوری طور پر صدر بائیڈن کا اس بل پر دستخط کر کے اس کو قانون کی شکل دینا اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کو ایک ضابطے میں لانا اور قانون کے تابع کرنا کس قدر ضروری ہے۔ ہمارے ہاں سماجی میڈیا کا منفی استعمال اب اس کے فوائد پر غالب آ چکا ہے اور اس کے مضمرات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ سراسر جھوٹ پر مبنی مواد اور پروپیگنڈا سوشل میڈیا کا عمومی چلن بن چکا ہے۔ اگرچہ منفی مواد کی تشہیر کے پیچھے زیادہ تر منظم گروہ متحرک پائے جاتے ہیں مگر جب پروپیگنڈا ایک مخصوص حد سے بڑھ جاتا ہے تو عام افراد کے ذہن بھی اس سے متاثر ہونے لگتے ہیں اور وہ بھی نادانستہ طور پر دشمن کے آلہ کار کے طور پر کام کرنے لگتے ہیں۔ متعلقہ مہارت کے بغیر عام آدمی حقیقت اور پروپیگنڈا میں فرق کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے اور یہی اس فورم کا سب سے زیادہ تشویش ناک امر ہے۔ جب کبھی حکومت کی جانب سے ڈیجٹیل فورمز اور سوشل میڈیا کو ضابطے میں لانے کی بات کی جاتی ہے تو اسے اختلافِ رائے اور اظہارِ رائے کے حق پر پابندی سے خلط ملط کر کے غلط تاثر پھیلایا جاتا ہے حالانکہ آئینِ پاکستان نے اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کی آزادی کے ساتھ ہی اس کی حدود و قیود کا بھی تعین کیا ہے۔ اگر اختلاف کے نام پر دوسروں کی پگڑیاں اچھالی جائیں یا ریاست اور ریاستی اداروں پر ناحق تنقید کی جائے تو اس کی قطعاً کوئی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ڈیجیٹل دہشت گردی معاشرے کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے جتنی کہ دوسری دہشت گردی‘ بلکہ بعض صورتوں میں اس کا نقصان نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال نو مئی کو ہوئے المناک واقعات میں ہم اس کا عملی اظہار دیکھ چکے ہیں کہ کیسے سوشل میڈیا کو سماج میں شرانگیزی اور فتنہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری تو خود عوام کی ہے کہ وہ پروپیگنڈا کی رو میں بہنے کے بجائے قرآنی تعلیمات کو مدنظر رکھیں‘ کہ جب کوئی خبر ملے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘ مبادا کسی کو نادانی سے نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے عمل پر نادم ہونا پڑے (مفہوم)۔ حکومت کی بھی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ریاست کے ہر شہری کو آگاہی فراہم کرے اور انہیں تعلیم و شعور کی دولت سے بہرہ ور کرے۔ اس حوالے سے سیاسی و سماجی قیادت اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ سماجی سطح پر تبدیلی کی پائیدار صورت تو یہ ہے کہ اصلاح کا عمل انفرادی سطح پر شروع ہو مگر یہ سب کچھ سماج پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ ریاست کو بہرطور اپنا فرض ادا کرنا ہے‘ لہٰذا جھوٹی اطلاعات پھیلانے اور ملکی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement