مہنگائی میں کمی؟
ادارۂ شماریات اور وزارتِ خزانہ کی رپورٹوں میں اگرچہ مہنگائی میں کمی کی نوید سنائی جا رہی ہے مگر زمینی حقائق قدرے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں اشیائے خور و نوش اور توانائی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ادارۂ شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دالوں کی قیمت60 فیصد جبکہ گوشت کی قیمت 25 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ سبزیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف گیس کی قیمت میں ایک سال کے عرصے میں 570 فیصد اضافہ ہو چکا جبکہ گزشتہ روز ایل پی جی کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ مہنگائی کا تجزیاتی مشاہدہ بتاتا ہے کہ ستمبر تا فروری روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہتی ہیں‘ جبکہ موسم تبدیل ہونے سے بجلی کی کھپت میں بھی کمی آ جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے یوٹیلیٹی اخراجات میں بھی کمی ہو جاتی ہے مگر اس کے بعد مارچ تا ستمبر‘ ایک طرف رمضان المبارک اور عیدین کے مواقع پر ذخیرہ اندوز اور گراں فروش مصنوعی مہنگائی کو ہوا دیتا ہے اور دوسری جانب بجلی کی ہوشربا قیمتیں اس گرانی کومزید بڑھا دیتی ہیں۔ لہٰذا مہنگائی میں کمی کو کامیابی سمجھنے کے بجائے اس رجحان کو برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ مہنگائی کی شرح میں حقیقی کمی اسی وقت آ سکتی ہے جب قیمتوں میں استحکام ہو اور عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو‘ جو صنعتی و پیداواری شعبے کو مہمیز دیے بغیر ممکن نہیں۔