آلودگی کا بھگتان
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک کو سالانہ 22 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ تعداد دہشت گردی کے ہاتھوں ہونیوالی ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے ہر سال اکتوبر سے دسمبر‘ جنوری تک ملک کے بیشتر میدانی علاقے شدید سموگ کی لپیٹ میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے طبی مسائل بھی شدید ہو جاتے ہیں۔

اس سنگین ماحولیاتی بحران کے باوجود حکومتی اقدامات زبانی جمع خرچ تک محدود نظر آتے ہیں۔ اس وقت لاہور نہ صرف ملک بلکہ دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق ٹرانسپورٹ فیول فضائی آلودگی میں سب سے زیادہ‘ 83فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کے پائیدار حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ٹریفک کی آلودگی پر قابو پانے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانا اور الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں صنعتوں میں معیاری ایندھن اور فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنانا‘ دھواں چھوڑنے والی انڈسٹری اور اینٹوں کے بھٹوں کی جدید ٹیکنالوجی پر منتقلی اور وسیع پیمانے پر شجر کاری مہمات کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ اگر اب بھی فضائی آلودگی کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں نہ صرف صحتِ عامہ کا بحران سنگین ہوتا جائے گا بلکہ اقتصادی نقصان بھی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔