اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مضبوط دفاع کی ضمانت

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی مبارکبار دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری قوم کی سلامتی کے محافظ کی حیثیت سے انکی قیادت نے ہماری بہادر مسلح افواج کو معرکۂ حق میں فیصلہ کن فتح دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے عوام جنگ کے دوران ان کی جرأت مندانہ اور بہادرانہ قیادت کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جس نے مسلح افواج کو متحد کیا‘ پوری قوم کو متحرک کیا اور وطن عزیز کیلئے ایک تاریخی فتح کو یقینی بنایا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی پاکستان کی مسلح افواج کی مشترکہ قیادت کے منصب پر تعیناتی کے تاریخی فیصلے کا نوٹیفکیشن گزشتہ روز جاری کیا گیا۔

 

اس سے ایک روز قبل وزیراعظم نے صدرِ مملکت کو اس حکومتی فیصلے کی منطوری کیلئے سمری ارسال کی تھی۔ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت عسکری سٹرکچر میں تبدیلی کا یہ فیصلہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور افواجِ پاکستان کو عالمی معیار کے کمانڈ سٹرکچر کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ جدید دور کے دفاعی چیلنجز بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ فی زمانہ جنگیں صرف زمینی‘ فضائی اور بحری خطرات تک محدود نہیں‘ انفارمیشن‘ سائبر وار فیئر اور دہشت گردی کی مختلف صورتوں میں خطرات کی نت نئی صورتیں ابھر رہی ہیں۔ قومی دفاع کے ان چیلنجز نے حالتِ امن کی تعریف کو بھی بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے کیونکہ زمین‘ فضا اور پانیوں میں بظاہر امن کے باوجود پروپیگنڈا کے ہتھیاروں سے اورسائبر سپیس میں خطرات درپیش ہو تے ہیں۔ ملکِ عزیز کے معاملے میں ہم اس حقیقت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے کلیدی دشمن کی جانب سے مسلسل اور غیر معمولی درجے کی پروپیگنڈا اور سائبر وار کا سامنا رہتا ہے۔ بھارتی سرکاری سرپرستی میں ڈِس انفارمیشن انڈسٹری‘ جس کا بنیادی ہدف پاکستان ہے‘ کس قدر پھیل چکی ہے اسکا اندازہ ای یو ڈس انفو لیب کی گزشتہ برسوں کے دوران جاری کی گئی رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ یہ دفاعی خطرہ جس کا ہدف سماج ہے‘ وقت کیساتھ بڑھتا اور نئے رنگ روپ اختیار کرتا جاتا ہے۔

نوجوان آبادی کی اکثریت کیساتھ پاکستانی سماج‘ جہاں تعلیم کی کمی کی تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور علاقائی‘ لسانی اور مذہبی تضادات سے بھی انکار ممکن نہیں‘ یہ عناصر ہمارے سماج میں دشمن کے پروپیگنڈا وار فیئر کیلئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سکیورٹی کا اپنی نوعیت کا الگ چیلنج ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے الگ مہارتیں‘ تنظیمی نظام اور وسائل درکار ہیں۔ معرکہ حق میں پاکستان کے منہ توڑ جواب کے بعد دشمن ہمیں دفاع کے روایتی شعبوں میں چیلنج کرنے کی جرأت تو نہیں کر سکتا مگر غیر روایتی جنگوں کے میدان میں دشمن کی جانب سے چیلنجز بڑھنے کے اندیشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ دشمن پروپیگنڈا اور دہشت گرد عناصر کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں زیادہ زور لگا سکتا ہے؛ چنانچہ دفاع کے ان شعبوں کو خصوصی توجہ درکار ہے۔

فی زمانہ دفاعی چیلنجز کی پیچیدہ صورتیں مسلح افواج کے کمانڈ سٹرکچر میں جن تبدیلیوں کا تقاضا کرتی تھیں‘ سی ڈی ایف کے قیام سے یہ تقاضے بہ احسن و خوبی پورے ہوں گے۔ افواج کی مجموعی کمان اور فیصلوں میں ہم آہنگی اور مسلح افواج کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر فیصلہ کرنا قومی دفاع کو مزید مضبوط بنائے گا۔ تمام افواج کی متحدہ کمانڈ طویل مدتی دفاعی منصوبہ بندی اور حکمت کیلئے ناگزیر ہے اور یہ افواجِ پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے گی۔ مضبوط دفاع معاشی استحکام کا لازمہ ہے؛ چنانچہ پوری امید ہے کہ افواجِ پاکستان کی مشترکہ کمان کے ذریعے حاصل ہونے والی دفاعی مضبوطی کے ثمرات معاشی اور سماجی استحکام کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے تمام اداروں کا مل کر کردار ادا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں