بادِ مخالف سے بادِ سموم تک …..فضائی آلودگی کا روگ
لاہور: (ڈاکٹر عثمان عمر) ایک وقت تھا کہ ناسازگار حالات سے لڑنے والوں کو حوصلہ دیا جاتا تھا کہ باد مخالف سے گھبرائیں نہیں کہ یہ تو پرواز میں بلندی کا سبب بنتی ہیں۔
اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ بادِ مخالف تو کیا بادِ موافق سے بھی جی گھبرانے لگا ہے، ہوا صاف اور صحت افزا ہو تو مخالف سمت سے چلنے پر بھی مفید ہوتی ہے لیکن یہی جھونکے جب زہریلے دھوئیں میں بدل جائیں تو سانس لیتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، یہ انسان تر قی کی کس بلندی پہ پہنچا ہے کہ اپنی ہی سانسیں اس کی دشمن بن گئی ہیں۔
ہمارے ماحول میں یہ زہر کسی دوسرے سیارے سے نہیں آیا، شاید یہ ہمارے اندر کی ہوس اور حرص کا زہر ہے جو جس نے انسان کے ساتھ ساتھ زمین کی تمام مخلوقات کا جینا محال کر رکھا ہے، کچھ غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ فضائی آلودگی کا یہ روگ مادی ترقی کے نظریے اور اس پر ہونے والی زہریلی سیاست کا پھل ہے، یہ وہ ’’زقوم‘‘ ہے جو انسانوں نے زمین کو جنت نظیر بنانے کے غرور میں اپنی عقل سے اُگایا ہے۔
اس زہریلی سیاست نے ہمیں جس ماحولیاتی اور صحت کے بحران سے دوچار کیا ہے، وہ تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا، یکم نومبر 2024ء کے اے کیو آئی کے مطابق فضائی آلودگی میں سرفہرست پاکستان، انڈیا اور چین ہے، ٹرائی لیٹرل کمیشن کی 2022ء کی ٹاسک فورس رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں،موسمی شدت اور درجہ حرارت میں اضافہ کا سب سے زیادہ شکار پاکستان ہے، دوسرا نمبر بنگلہ دیش اور تیسرا انڈیا کا ہے۔
اس بحران میں کون اور کتنا ذمہ دار ہے، یہ ایک الگ داستان ہے مگر اس بحران سے نکلنے میں کامیاب کہانی چین کی ہے، چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے 2014ء میں ’’فضائی آلودگی کے خلاف جنگ‘‘ کا اعلان کیا اور آج دس برس بعد چینی قوم فاتح نہ سہی لیکن بادِ سموم سے لڑنے والی باہمت اور مخلص قوم ضرور سمجھی جا رہی ہے، امریکی خارجہ پالیسی میں مرکزی کردار ادا کرنے والے تھنک ٹینک ’’کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ نے بھی چین کی اس لڑائی کی داد دی ہے۔
فضائی آلودگی کے خلاف اس کامیاب مہم کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، جس نے آزادانہ طور پر پالیسیوں کو ترتیب دیا اور بنیادی سطح پر لوگوں کو آلودگی کی سنگینی سے آگاہ کیا، 2013 میں چین میں ایک انسدادِ آلودگی مہم شروع کی گئی جس کا مقصد ہوا میں موجود مضر صحت ذرات (جن کا قطر 2.5 مائیکرومیٹر سے زیادہ ہوتا ہے) کی مقدار کو کم کرنا تھا، گلوبل برڈن آف ڈیزیز کے مطابق 2019ء تک ان ذرات کی وجہ سے چین میں 14 لاکھ اموات ہوئی تھیں، 2013ء سے 2019ء کے دوران، ان ذرات کی مقدار آدھی رہ گئی اور یہ مسلسل کم ہو رہی ہے۔
چین کی وزارتِ ماحولیات کے مطابق مسلسل کوششوں اور حکمتِ عملی کی بدولت 2022ء تک چین کے 339 بڑے شہروں میں فضا اس حد تک صاف اور شفاف ہو چکی ہے کہ سال میں 316 دن ہوا کا معیار بہترین رہتا ہے، نیلا آسمان پھر سے نظر آنے لگا ہے، جو نہ صرف چینی عوام کے لیے تازگی کا پیغام ہے بلکہ غیر ملکی سیاحوں کیلئے بھی کشش رکھتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے چین کو سر سبز و شفاف بناتے ہوئے اپنی بانہوں میں لے لیا ہو، بلاشبہ، چین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے عالمی سطح پر سب سے پہلے فضائی معیار کو اس حد تک بہتر کر لیا ہے کہ فطرت نے خود اْس کی سرزمین پر اپنے رنگ بکھیر دیئے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق چین کی یہ کوششیں نہ صرف ملکی سطح پر کامیاب رہی ہیں بلکہ عالمی فضائی معیار میں بھی بہتری کا باعث بنی ہیں، چین ابھی بھی اس مشن پر کام کر رہا ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہوا میں 2.5PM جیسے باریک ذرات کی محفوظ حد پانچ مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہونی چاہیے، چین نے اس معاملے میں بڑی پیشرفت کی ہے، مگر ابھی بھی یہ مقدار 29 مائیکروگرام پر ہے۔
اگر ہم جاننا چاہیں کہ چین نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی اور ہم اپنے ملک میں اس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں تو ہمیں چین کی سیاسی قیادت کی پالیسیوں پر دھیان دینا ہوگا، مغربی ترقی یافتہ ملکوں کے اندازے تھے کہ چین ایسا نہیں کر پائے گا کیونکہ وہاں جمہوریت نہیں ہے، مغربی ماہرین اپنی روایتی سرمایہ دارانہ دانش اور نسلی تعصب کی بنا پر بضد تھے کہ جمہوریت کے بغیر پالیسیوں کا نفاذ نہیں ہو سکتا، چین میں جمہوریت نہیں اور مغربی معیارات کے مطابق وہاں قانون کی حکمرانی کا معیار بھی کم ہے۔
اس کےباوجود چینی قیادت اور پالیسی سازوں نے سارےاندازے غلط کردکھائے،اصل بات یہ ہے کہ چین میں روایتی انداز کی مرکزی منصوبہ بندی نہیں بلکہ قانون پر استوار گورننس ہے ، اس اندازِ حکمرانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اہداف کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔
اہداف مرکز اور قانونی حکمرانی پر استوار گورننس ماڈل کی مدد سے جہاں دیگر شعبوں میں چین نے کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں فضائی آلودگی کم کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے، ماحولیات سے متعلق گورننس کے دو حصے ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ ظاہری حصے میں سیاسی قیادت ترجیحی ہدف مقرر کرتی ہے لیکن اس پر مکمل غور و فکر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے حصول کا کوئی واضح راستہ متعین کیا جاتا ہے۔
اہداف کے حصول کیلئے راستے کا تعین دوسرے حصے میں نچلی سطح سے ہوتا ہے، متعین ہدف کے فائدے دیکھتے ہوئے نچلی سطح پر معاشرے کے تمام گروہ اس ہدف کے حصول کو اپنا ہدف بنا لیتے ہیں کیونکہ اس ہدف کے ساتھ کئی مراعات جڑی ہوتی ہیں، اس طرح پالیسی محض مسلط نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کے نفاذ کیلئے سختی کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن اس کیلئے سیاسی قیادت کا اخلاص ضروری ہے، اگر قیادت مخلص ہو تو عوام قیادت کے مشن کو اپنا مشن بنا کر قیادت کے دست و بازو بن جاتے ہیں، بظاہر یہ عمل غیر جمہوری لگتا ہے لیکن دیکھا جائے تو عوام کی رائے اس میں حقیقی طور پر شامل ہے۔