سموگ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے پاکستان کو لندن اور بیجنگ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا
لاہور: (ویب ڈیسک) سموگ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو انسانی اور مشینی بے احتیاطی کے نتیجہ میں پیدا ہورہی ہے اور اب یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، پچھلے چند برسوں میں بھارت اور چین کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں کو اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان میں ہر برس نومبر اور دسمبر میں سموگ کی وجہ سے کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے اور یہ مسئلہ ہر برس شدت اختیار کرتا جارہا ہے، ہر سال پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا آسمان لاکھوں گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی، آس پاس کے کھیتوں میں فصلوں کو جلانے اور گھروں میں کھانا پکانے کے لیے کھلی آگ کے استعمال کی وجہ سے دھندلا رہتا ہے اور ہر سال شہری یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کچھ بدل کیوں نہیں رہا؟
پہلے پہل تو یہ مسئلہ صرف لاہور کے باسیوں کو درپیش تھا مگر اب صرف لاہور ہی نہیں بلکہ ملتان، فیصل آباد، قصور سمیت دیگر شہروں میں صورتحال خاصی پریشان کن ہے اور اکثر شہری سینے میں جلن، سانس لینے میں دشواری اور کھانسی، زکام کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سموگ کے مسئلے سے پریشان پاکستان وہ پہلا ملک نہیں ہے جہاں یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے بلکہ ماضی میں دو ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومت بھی سموگ کی لپیٹ میں رہے ہیں اور اس سے نکلنے میں انہیں برسوں لگے ہیں۔
لندن کی سموگ اور اس کا حل
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19 ویں اور 20 ویں صدی میں متعدد مرتبہ سموگ شہر پر چھا جانے کے واقعات دیکھے گئے، یہ عموماً اس وقت ہوتا جب لوگ کوئلہ جلا کر گھروں کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے اور شہر میں موجود ہیوی انڈسٹری میں سے مختلف کیمیکلز فضا میں چھوڑے جاتے۔
1952 میں دی گریٹ سموگ آف لندن ان سب میں سے سب سے زیادہ مقبول موقع تھا جب چار روز تک حدِ نگاہ اتنی کم ہو گئی تھی کہ صرف چند فٹ تک ہی واضح دکھائی دیتا تھا، اس دوران کچھ اندازوں کے مطابق 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ سموگ نے زندگی کو ایسے مفلوج کر دیا تھا کہ یہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہو گئی تھی اور سنیما گھروں میں سکرینز نظر آنا بند ہو گئی تھیں۔
5 دسمبر 1952 کو جب تہوار کے موسم کے آغاز کے بعد لندن کے باشندے شہر میں سیر و تفریح کر رہے تھے تو ایسے میں صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، جیسے جیسے رات ڈھلتی گئی، دھند گہری ہوتی گئی اور جلد ہی سموگ کی ایک تہہ نے دارالحکومت کو اندھیروں میں ڈبو دیا اور نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔
لندن والے سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انھیں چند گز سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اگلے دن سورج طلوع ہوا تو سموگ پھر بھی برقرار رہی بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہو گئی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں لوگ ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے تھے، اگلے چار دنوں تک شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔
زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن والے اب ایک نئی مصیبت میں گِھر گئے۔ شہر میں نمونیا اور کھانسی، گلا خرابی جیسے امراض پھیل گئے اور شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے کیونکہ ہزاروں لوگ زہریلی ہوا میں دم توڑ گئے۔
لندن میں اس واقعے کے بعد سے حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے لیکن 1956 میں برطانیہ کی پارلیمان کی جانب سے "کلین ایئر ایکٹ" پاس کیا گیا جس میں صنعتی اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں "سموک کنٹرول ایریاز" بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے اور گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ پائیدار ایندھن پر منتقل ہو سکیں۔
1968 میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کی ایئر کوالٹی میں اس کے بعد کی دہائیوں میں بہتری آنے لگی، شہر کی جانب سے "الٹرا لو ایمشن زون" متعارف کروائے گئے جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی گاڑیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔
لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے، تاہم اب بھی لندن میں فضائی آلودگی یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
چین نے زہریلے دھویں سے کیسے نجات حاصل کی؟
دوسری جانب چین میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا، 1980 کی دہائی کے بعد سے جب چین میں کوئلے سے چلنے والے پاور سٹیشن اور گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں زہریلے کیمیکلز اور فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔
2014 میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کا کہنا تھا کہ شہر "انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا" کیونکہ یہاں آلودگی بہت زیادہ ہے تو پھر چین نے اس کا حل نکالا جس کے لیے اسے برسوں محنت کرنا پڑی۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2017 میں 4 سال کے درمیان بیجنگ میں فضا میں زرات کی شرح 35 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد ہو گئی، رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے کسی اور شہر نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی، تاہم یہ اس لیے تھا کیونکہ چین نے جو اقدامات متعارف کروائے وہ 1998 کے بعد سے دو دہائیوں تک مختلف اشکال میں نافذ کیے جاتے رہے۔
چین کی حکومت صنعتوں پر اخراج کو بہت کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم بنایا اور مزید پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی بنایا، چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی کو بھی بہتر بنائی گئی، بیجنگ نے تاحال مکمل طور پر اس مسئلے کو حل نہیں کیا، شہر میں اب بھی فضائی آلودگی ہے اور آمدورفت کے دوران اکثر افراد ماسک کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک بڑے ایکشن پلان کے تحت چین نے کچھ کارخانوں پر صنعتی اخراج کے معیار کو سخت کیا اور پرانے کارکانوں کو مرحلہ وار اپ گریڈ کیا، 20 ملین پرانی گاڑیاں ضائع کر دی گئیں، دولاکھ صنعتی بوائلرز کو اپ گریڈ کیا گیا اور 60 لاکھ گھرانوں کے لیے بجلی کے ذرائع کو کوئلے سے قدرتی گیس پر تبدیل کیا۔
دیگر اقدامات کے علاوہ کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگا دی گئی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بند کر دیا گیا، ڈیزل ٹرکس میں ایندھن اور انجن کے معیار کو بڑھایا گیا جبکہ آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کا استعمال بند کر دیا، لوگوں کو الیکٹرک کاروں کو اپنانے اور مختصر سفر کے لیے اپنی سائیکل چلانے کی ترغیب دی گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سموگ کے خاتمہ کے لیے پاکستان بھی لندن اور بیجنگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کے باسیوں کو درپیش سموگ کے مسئلے سے نجات دلائے۔