"KMK" (space) message & send to 7575

شارجہ کا کتاب میلہ

میں گزشتہ تین دن سے شارجہ میں ہوں اور موج میلہ کر رہا ہوں۔ قارئین کی جانب سے کسی متوقع فتوے سے قبل میں یہ واضح کر دوں کہ میں جب موج میلے کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اس سے فوری طور پر اپنے معانی و مطالب اخذ کرنے کے بجائے تھوڑا توقف کریں اور میرے موج میلے کی تفصیل پڑھنے کے بعد اس کے بارے میں رائے قائم کریں۔
یہ دن شارجہ ایکسپو سنٹر میں لگنے والے شارجہ انٹرنیشنل بُک فیئر یعنی کتاب میلے کے حوالے سے یادرگار بنے ہوئے ہیں۔ 1982ء میں شروع ہونے والا یہ کتاب میلہ اپنے 42سال مکمل کر چکا ہے۔ 2024ء والا حالیہ کتاب میلہ اس کا 43واں ایڈیشن ہے جو مورخہ چھ نومبر کو شروع ہوا اور حسبِ معمول بارہ دن جاری رہنے کے بعد 17نومبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ میں اس میں دوسری بار شرکت کر رہا ہوں۔ شارجہ کا بین الاقوامی کتاب میلہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں لگنے والے فرینکفرٹ بُک فیئر کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے۔ فرینکفرٹ کا کتاب میلہ صرف پبلشرز کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے‘ تاہم اگر دیگر سرگرمیوں‘ اپنی رنگا رنگی اور عوامی پذیرائی و شمولیت کو معیار بنائیں تو شارجہ انٹرنیشنل بُک فیئر دنیا کا سب سے بڑا نہ بھی سہی تو دنیا کا سب سے پُررونق اور شاندار بُک فیئر ہے۔اس سال والا کتاب میلہ تو ابھی چل رہا ہے‘ اگر گزشتہ سال والے کتاب میلے کا مختصر سا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شارجہ جیسی چھوٹی سے اماراتی ریاست نے کتاب سے محبت کو کس بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔ شارجہ عرب ممالک بلکہ متحدہ عرب امارات کی سات عدد ریاستوں میں مالی وسائل اور دولت کے اعتبار سے کم از کم تیل کی دولت سے مالا مال ابوظہبی اور تجارت و سیاحت سے دولت کمانے والے دبئی سے کہیں کم مالی وسائل رکھتا ہے لیکن اس ریاست کے حکمران شیخ سلطان بن محمد القاسمی کی ترجیحات دوسرے عرب حکمرانوں سے کچھ مختلف ہیں۔ یہ اس حکمران کی ذاتی کاوش ہے جس کے باعث شارجہ جیسی بالکل چھوٹی سی ریاست میں ہر سال نومبر میں ایشیا اور اسلامی دنیا کا سب سے بڑا کتاب میلہ سجتا ہے۔
اس سال کا کتاب میلہ تو ابھی جاری ہے اور اس کی بہت سی تفصیلات شاید ابھی مرتب نہیں ہوئیں‘ تاہم گزشتہ سال ہونے والے کتاب میلے کا جائزہ لیا جائے تو بڑی حیران کن تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ گزشتہ سال 42ویں کتاب میلے میں حکومتِ شارجہ نے 109 ممالک سے تعلق رکھنے والے 2033 نمائش کنندگان کی میزبانی کی۔ اس کتاب میلے کو بارہ دن کے دوران 22 لاکھ کے لگ بھگ شرکا نے اپنی موجودگی سے رونق بخشی۔ اس کتاب میلے کا بنیادی مقصد کتابوں کی اشاعت اور مطالعہ کو فروغ دینا ہے اوراس میلے کا مرکزی خیال مصنفین‘ اشاعتی اداروں‘ مفکروں‘ فنکاروں‘ عالموں‘ فاضلوں اور عام لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ادب کی ترویج کرنا ہے۔ گزشتہ سال اس میلے میں 1700 سے زائد ثقافتی‘ سائنسی‘ ادبی اور دیگر فنکارانہ ایونٹس منعقد ہوئے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ اس میلے میں بچوں کیلئے خصوصی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کے ادب‘ ورکشاپس اور ادیبوں سے ان کا مکالمہ تھا۔ مختلف ہالز اور مخصوص مقامات پر مصنفین‘ علما اور فنکاروں سے گفتگو اور سوال و جواب کی مجلسیں منعقد ہوتی رہیں اور دنیا بھر سے مختلف زبانوں کے تقریباً چھ سو مصنفین نے کتاب میلے میں آنے والے کتاب دوست شرکا کو اپنی خرید کردہ نئی کتابوں پر دستخط ثبت کرکے دیے۔ اجتماعی مذاکرے‘ ورکشاپس‘ مختلف پرفارمنسز اور پبلشرز کانفرنس اس کتاب میلے کی وہ جہتیں ہیں جس نے اسے مزید بارونق اور پُرلطف بنا دیا۔
اس سال ہونے والے کتاب میلے کیلئے وسیع و عریض سات ہالز پر مشتمل ایکسپو سنٹر کم پڑ گیا تو منتظمین نے ایکسپو سنٹر کے دیگر ہالز سے متصل ایک بہت بڑا خیمہ نما عارضی ہال مزید شامل کر دیا۔ یہ اس لیے کرنا پڑا کہ اس سال کتاب میلے میں دنیا بھر کے پبلشرز نے جو کتابیں نمائش کیلئے رکھیں ان کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد ہے۔ اس سال اس کتاب میلے کا مہمانِ خصوصی مراکش ہے جس کے پویلین میں 107 مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ہے اور جس میں 40 سے زائد اشاعتی اداروں‘ مصنفین‘ ثقافتی اداروں‘ فنکاروں اور ادب سے متعلقہ شعبوں کے نامور لوگ شرکت کریں گے۔ یہ صرف ایک ملک کی جانب سے اس میلے میں شرکت کے حوالے سے تفصیل ہے لیکن پاکستان اور اردو کتابوں کا حال بہت ہی پتلا ہے۔
پہلے تین ہال تو صرف عرب ممالک یا عربی کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے بہت سے اشاعتی ادارے تو اس میلے میں شریک ہیں ہی‘ ان کے علاوہ سعودی عرب‘ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ مصر‘ سوڈان‘ جنوبی سوڈان‘ لیبیا‘ تیونس‘ ترکیہ‘ موریطانیہ‘ الجزائر‘ عراق اور عمان کے علاوہ جنگ زدہ شام اور لبنان سے درجن بھر سے زائد اشاعتی اداروں نے اپنے سٹال لگائے ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ اور آسٹریلیا کے علاوہ بہت سے ممالک کی نمائندگی ہے۔ بنگلہ دیش کے سٹالز کی تعداد زیادہ نہ سہی مگر پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے پبلشرز کی بات کی جائے تو انگریزی اور ہندی کے علاوہ ان کی علاقائی زبانوں کے سٹالز بھی اس کتاب میلے میں موجود ہیں۔ آپ بھارتی پبلشرز اور حکومت کی اس بُک فیئر میں دلچسپی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دو درجن سے زائد ہندی اور انگریزی کتابوں کے پبلشرز کے علاوہ دو سٹال تامل زبان کی کتابوں کے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ملیالم زبان کے سٹالز کی تعداد بھی بیس کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ اردو زبان کا صرف ایک سٹال ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اکلوتا سٹال بھی کسی پبلشر نے نہیں بلکہ نان پبلشر نے لگایا ہے۔ ہاں! البتہ اس سٹال پر جہلم کے پبلشر‘ بُک کارنر نے اپنی کتابوں کی بھرپور نمائش کا اہتمام کیا ہوا ہے۔
حکومت کی سرپرستی اور دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ دوسرے ممالک سے آنے والے مہمانوں اور شرکا کو ٹھہرانے کیلئے جس جس ہوٹل میں بندوبست کیا گیا ہے اس میں بُک فیئر والوں کی جانب سے استقبالیہ و سہولتی کاؤنٹر لگا ہوا ہے جس پر ہمہ وقت دو تین لوگ موجود ہیں۔ ہر مہمان کی دیکھ بھال اور تسہیل کیلئے ایک فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے جو اس کے ایکسپو سنٹر میں آنے جانے کا بندوبست کرنے کے علاوہ دیگر معاملات میں سہولت کیلئے کُل وقتی طور پر دستیاب ہے۔ میرے ساتھ مصر سے تعلق رکھنے والا‘ شارجہ کے ایک کالج میں عربی کا استاد عبدالحمید متعین ہے جو سارا دن وقتاً فوقتاً مجھ سے میرے ٹائم ٹیبل کے مطابق ایکسپو سنٹر جانے اور آنے کی سہولت کاری کیلئے رابطے میں رہتا ہے۔ میرے لیے بھلا صبح سے شام تک اس کتابوں کی دنیا میں گھومنے اور کتابوں کی مہک سے لطف اندوز ہونے سے بڑھ کر اور عیاشی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ عاجز صبح سے شام تک کتابوں کے سٹالز کے درمیان گھومتا رہتا ہے۔ کتابوں کو اٹھا کر صفحات پلٹتا رہتا ہے اور دنیا بھر میں کتاب کی چھپائی اور خوبصورتی کا معیار دیکھتا رہتا ہے۔ عربی اور دیگر زبانوں سے ناآشنائی کی رکاوٹ نہ ہوتی تو یہ عاجز آدھے سے زائد اُن سٹالز سے بھی بھرپور لطف لے سکتا تھا۔ لے دے کر ایک اردو سٹال اور انگریزی کتابوں کے سینکڑوں سٹال ہیں جن میں کتابوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور یہ فقیر ان میں ڈبکیاں لیتے ہوئے سوچ رہا ہے کہ یہ سب کچھ حکمرانوں اور حکومتوں کی ترجیحات والا معاملہ ہے۔ کبھی اسلام آباد میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سربراہی میں لگنے والا نیشنل بُک فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ حبس میں تازہ ہوا کا جھونکا ہوتا تھا۔ اب یہ جھونکا بھی حبس کی نذر ہو چکا ہے۔ سربراہ نالائق آ جائیں تو اچھے بھلے چلتے ہوئے ادارے بھی برباد ہو جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں