’’ صدیقؓ کیلئے ہے خدا کا رسولﷺ بس ‘‘
لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے، یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرامؓ کو ہی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت، جنت اور اپنی رضا کی خوشخبری دی ہے۔
صحابہ کرامؓ کی جماعت میں سے خاص طور پر وہ ہستیاں جنہوں نے حضورﷺ کے بعد اس اُمت کی زمامِ اقتدار، امارت، قیادت اور سیادت کی ذمہ داری سنبھالی، ان بابرکت شخصیات میں سے ایک خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیقؓ ہیں جنہیں قبل ازبعثت بھی نبی مکرمﷺ کی دوستی کا شرف حاصل ہے، جنہیں 23 سالہ پورے دورِ نبوت میں نبی مکرمﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا۔ جنہیں تمام غزوات میں نبی کریم ﷺ کی ہمرکابی کا فخر حاصل ہے۔
جنہیں قرآن کریم کے ذریعے صحابیت کی سند حاصل ہے، جنہیں وفات کے بعد بھی حجرہ رسولﷺ میں نبی کریمﷺ کا ساتھ حاصل ہے، جنہیں وصالِ رسولﷺ جیسے غمناک والمناک موقع پر امت کو سنبھالا دینے اور اختلاف سے بچانے کا مقام حاصل ہے، جنہیں انکار زکوٰۃ، انکار ختم نبوت اور ارتداد جیسے خطرناک فتنوں کا سر کچلنے کی سعادت حاصل ہے، جنہیں السابقون، الاولون، عشرہ مبشرہ اورخلفاء راشدین میں سر فہرست ہونے کا مرتبہ حاصل ہے۔
نام ونسب
امام طبرانی آپؓ کے نام و نسب کے متعلق لکھتے ہیں، حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرّۃ ہے، آپؓ کی والدہ ماجدہ کا نام اْمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے۔ (المعجم الکبیر، ج1،حدیث:1)۔
عتیق لقب کی وجہ تسمیہ
عتیق آپؓ کا پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپؓ کو اسی لقب سے ہی یاد کیا گیا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریمﷺ نے انہیں فرمایا: ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘، تب سے آپ ؓ کا لقب عتیق ہوگیا، (صحیح ابن حبان: 6864)۔ امام طبرانی بیان کرتے ہیں، حضرت لیث بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا نام عتیق آپؓ کی خوبروئی کی وجہ سے رکھا گیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی :4)
صدیق لقب کی وجہ تسمیہ
حضرت نزال بن سبرہؓ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علیؓ سے عرض کی کہ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکرؓ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیﷺ کی زبان سے ’’صدیق‘‘ رکھا (مستدرک حاکم: 4406) ۔
قبولِ اسلام
حضرت ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، آپؓ ملک شام تجارت کیلئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپؓ نے ایک خواب دیکھا جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا، اس نے پوچھا آپؓ کہاں سے آئے ہو؟ فرمایا: مکہ سے، اس نے پھر پوچھا: کونسے قبیلے سے تعلق ہے؟ فرمایا: قریش سے، پوچھا: کیا کرتے ہو؟ فرمایا: تاجر ہوں، وہ کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچا فرما دیا تو وہ تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر اور وصال کے بعد اس کے جانشین ہوگے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا اور جب نبی کریمﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپؓ نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپﷺ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آپﷺ نبی ہیں؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’وہ خواب جو آپؓ نے شام میں دیکھا تھا‘‘، یہ سنتے ہی آپؓ نے نبی اکرمﷺ کو گلے لگا لیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ج1، ص 84)
سب سے پہلے اسلام قبول کرنا
آپ ؓ کے اوّل اسلام لانے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکرؓ ہیں۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: 8365)۔
نکاح اور اولاد
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیویوں کی تعداد چار ہے، آپؓ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں اور دو مدینہ منورہ میں کئے، ان ازواج سے آپؓ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں، پہلی زوجہ اُم قتیلہ سے آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ اور بیٹی حضرت سیدہ اسماءؓ پیدا ہوئیں، دوسری اہلیہ اُم رومان (زینب) سے بیٹے حضرت عبدالرحمنؓ اور بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ پیدا ہوئیں، تیسری زوجہ حبیبہ بنت خارجہ سے بیٹی حضرت سیدہ اُم کلثوم ؓ پیدا ہوئیں، چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا، ان سے آپؓ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ج1،ص 266)
چار نسلیں صحابی
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا، آپؓ خود صحابی، آپؓ کے والد حضرت ابو قحافہؓ، تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ ؓ، حضرت عبدالرحمن ؓ اور حضرت محمد ؓ) بھی صحابی، آپ ؓ کے پوتے بھی صحابی، آپؓ کی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ ؓ، حضرت سیدہ اسماء ؓ اور حضرت سیدہ اُم کلثوم ؓ) بھی صحابیات اور آپؓ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔
360 نیک خصلتوں کے مالک
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک ہونے کے ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے، آپؓ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر آپ ؓ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، حضرت سیدنا سلیمان بن یسارؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھی خصلتیں 360 ہیں اور اللہ تعالیٰ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس میں ایک خصلت پیدا فرما دیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرما دیتا ہے‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکرؓ! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں‘‘ (تاریخ مدینہ دمشق، 103/30)
رفیقِ نبی و صاحبِ نبیﷺ
حضرت زبیر بن عوامؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ تو نے ابوبکرؓ کو غار میں میرا رفیق بنایا تھا پس میں اسے جنت میں اپنا رفیق بناتا ہوں‘‘ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، ج2، ص 73)، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے آپﷺ کے صاحب ہونے کے متعلق امام بخاری ؒبیان کرتے ہیں: حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے صاحب ہیں‘‘ (صحیح بخاری: 3456)۔
عاجزی و انکساری
آپؓ نہایت درجہ کے عاجز و منکسرالمزاج تھے، حضرت سیدہ انیسہؓ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ بننے سے پہلے محلے کی بچیاں آپؓ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں اور آپؓ انہیں دودھ دھو دیا کرتے تھے، جب آپؓ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپؓ سے کہنے لگی: اب تو آپؓ خلیفہ بن گئے ہیں، آپؓ ہمیں دودھ دھر کر نہیں دیں گے، آپؓ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں! اب بھی میں تمہیں دودھ دھو کر دیا کروں گا اور خلیفہ بننے کے بعد بھی آپؓ ان بچیوں کو دودھ دھو کر دیا کرتے تھے۔ (تہذیب الاسماء،ج2، ص480)
خدمت ِخلق
خدمت خلق کو آپؓ نے اپنا شعار بنایا، حضرت عمر فاروقؓ رات کے وقت مدینہ منورہ میں ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھریلو کام کاج کر دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام پہلے ہی کوئی کر گیا تھا، دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے تو بھی وہی صورتحال تھی، جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپؓ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟
ایک روز آپؓ دن میں ہی آ کر چھپ گئے، جب رات ہوئی تو دیکھا کہ خلیفہ وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور بڑھیا کے سارے کام کر دیئے، ارشاد فرمایا: ابوبکر صدیقؓ مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔ (کنزالعمال: 35602)
سخاوت
اللہ رب العزت نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو دیگر اوصاف میں نمایاں مقام عطا فرمایا، وہاں وصف سخاوت میں بھی اعلیٰ و ارفع مرتبے سے نوازا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کے دامن سے وابستہ ہوتے ساتھ ہی اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرنا شروع کر دیا، آپ ؓ ایک مال دار تاجر تھے، جس وقت آپؓ نے اسلام قبول کیا آپؓ کے پاس 40 ہزار درہم تھے جبکہ ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار درہم باقی رہ گئے تھے، باقی سارے پیسے آپؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں صرف کر دیئے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی کریمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو راہ خدا میں مال پیش کرنے کا حکم دیا تو تمام صحابہ نے حسب توفیق اسلامی لشکر کی مالی معاونت کی، اس موقع پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جس طرح سے سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سخاوت کا واقعہ حضرت عمر فاروق ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرمﷺ نے صدقہ دینے کا حکم دیا، اس حکم کی تعمیل کیلئے میرے پاس کافی مال تھا، میں اپنا نصف مال لے کر حاضرخدمت ہوا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: ’’جتنا لے آیا ہوں اتنا ہی چھوڑ آیا ہوں‘‘، اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضر خدمت ہوئے، آپﷺ نے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ! اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا؟‘‘، انہوں نے عرض کیا ’’میں ان کیلئے اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں‘‘۔
حضرت عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اس دن خود سے کہا کہ میں ابوبکر صدیقؓ سے کسی معاملے میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا (سنن ترمذی: 3675)۔
وزیر مصطفیﷺ
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضورﷺ کا وزیر ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’ہر نبی کیلئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں، پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرائیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں (سنن ترمذی: 3680)، حضرت سعید بن المسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضورﷺ اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔
بطورِ امیرالمومنین ذریعہ معاش
علامہ سیوطیؒ آپؓ کے امیرالمومنین بننے کے بعد ذریعہ معاش سے متعلق لکھتے ہیں: حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر گھرسے نکلے، حضرت عمر فاروقؓ نے دریافت کیا کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: بغرض تجارت بازار جا رہا ہوں، سیدنا عمر فاروقؓ نے عرض کیا: اب آپؓ یہ کام چھوڑ دیجئے، آپؓ لوگوں کے خلیفہ ہیں، یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟
حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا آپؓ کے اخراجات حضرت سیدنا ابو عبیدہؓ طے کریں گے، پھر یہ دونوں حضرات ان کے پاس تشریف لائے، حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ نے ان سے فرمایا: آپؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کر کے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے۔ چنانچہ آپؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کیلئے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کر دی۔ (تاریخ الخلفاء، ص59)
جمع قرآن: سید نا ابوبکر صدیق ؓ کا عظیم کارنامہ
نبی کریمﷺ کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا اور سارے اجزاء الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کرانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا، چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہوگیا جس کو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے متفرق اجزاء سے نقل کر کے ایک جگہ پر اکٹھا کیا گیا، یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اور ہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی، صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔
دورِ صدیقی میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے، قرآن کریم کو پہلی بار ایک مصحف میں جمع کرنے کی یہ تحریک تب پیدا ہوئی جب جنگ یمامہ میں بہت سے حفا ظ و قراء صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔
مام احمد بن حنبل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے جامع قرآن ہونے کے متعلق لکھتے ہیں: حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے، آپؓ نے فرمایا: قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکرؓ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا ( فضائل الصحابہ : 513)۔
وصال
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے مرض الموت کی ابتداء 7 جمادی الثانی 13 ہجری کو ہوئی، آپؓ کو بخار ہوا جو پندرہ دن تک رہا، اس دوران آپؓ کے حکم پر سیدنا عمر فاروقؓ امامت فرماتے رہے، بالآخر 63 سال کی عمر میں 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو آپ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے، آپؓ کی نماز جنازہ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے پڑھائی اور قبر حضور اکرمﷺ کے پہلو میں تیار کی گئی۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔