ٹرمپ انتخابی مہم سے پہلے افغان امن معاہدہ چاہتے ہیں
امریکہ اورطالبان کے درمیان معاہدہ پہلے سے موجود عملدرآمد کا اعلان باقی ہے
تجزیہ:سلمان غنی طالبان کے ساتھ یکدم مذاکرات موخر کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے ہنگامی دورے کے دوران طالبان کی جانب سے سیز فائر کاعندیہ اور ان کے ساتھ ڈیل کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک معقول حد تک فوجی دستوں کی تعداد میں کمی کر رہا ہے ، امریکی صدر کے دورہ افغانستان جسے انتہائی خفیہ رکھا گیا، تلگرام ایئر بیس پر قیام کے دوران انہوں نے جہاں اپنے فوجیوں کو خود کھانا دیا، تصاویر بنائیں وہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی جنہوں نے امریکی فوجیوں کی قربانیوں پر شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ افغان فورسز برتری حاصل کر رہی ہیں، لہٰذا مذکورہ دورے کو افغان امن عمل کے حوالے سے کتنا اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ طالبان سے مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ہوگا، افغان انتظامیہ اس میں کس حد تک معاون بنے گی اور امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا ؟جہاں تک امریکی صدر کے ہنگامی دورہ افغانستان کا سوال ہے تو امریکی صدر نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھینکس گونگ ہولیڈے ،پرافغانستان کا دورہ کیا اور امریکی فوجیوں سے ملاقات کی لیکن مذکورہ دورے کو افغانستان میں امن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی آخری اسٹمپ کے طور پر لیا جا رہا ہے چونکہ دسمبر، جنوری میں ان کی انتخابی مہم کا آغاز ہونے جا رہا ہے تو وہ یہ چاہیں گے کہ امریکی عوام سے اپنے اس وعدے کی تکمیل کر سکیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہو، لیکن یہ انخلا تبھی ممکن ہوگا جب امریکہ یہاں اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ امن پر کوئی بڑی پیش رفت کر سکے گا اس سے قبل امریکہ اور طالبان کے درمیان امن کے حوالے سے معاہدہ تقریباً طے پا چکا تھا مگر کابل میں ایک حملے کو جواز بناتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعہ سارا امن عمل منسوخ کر دیا تھا جس سے افغانستان میں امن کے حوالے سے کوششیں کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں۔ اب امریکی صدر نے ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کیا ہے جب امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی کیلئے طالبان کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اعتماد بحال ہوا ہے اور اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ وہ مذاکرات جس کے نو دور ہوئے اور اس کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ باقاعدہ شکل اختیار کر گیا تھا اور اس کا اعلان خود افغانستان بارے امریکی ذمہ دار زلمے خلیل زاد نے کیا تھا۔ اسی پر ہی آمادگی ظاہر کر دی جائے لیکن اس میں بنیادی رکاوٹ پھر اشرف غنی انتظامیہ کی مشکل اور خطے میں بھارت کے تحفظات ہوں گے ، کیونکہ امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں افغانستان کی اشرف غنی حکومت کی اہمیت و حیثیت بہت حد تک متاثر ہوئی تھی اور وہ اس حوالے سے تحفظات بھی ظاہر کرتے آئے تھے ، لیکن امریکہ نے اشرف غنی انتظامیہ کے تحفظات سے صرف نظر برتتے ہوئے طالبان سے مذاکرات جاری رکھے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ سمجھتا تھا اور سمجھتا ہے کہ افغانستان کی اصل قوت طالبان ہی ہیں۔ جنہوں نے افغانستان کے بڑے علاقہ پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے جبکہ دوسری جانب اشرف غنی انتظامیہ سالہا سال سے تمام تر بیرونی امداد کے باوجود یہاں اپنے پنجے نہیں گاڑ سکی اور خود امریکہ کو افغانستان میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اس حوالے سے پاکستان کو اس مؤقف پر آنا پڑا کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت اور قوت کے ذریعہ حل ہونے والا نہیں اور اگر طاقت اور قوت کے ذریعہ مسئلہ حل ہوتا تو امریکہ 42 ممالک کی مدد سے یہاں اپنا تسلط قائم کر چکا ہوتا، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ تمام تر عالمی قوتوں کی جانب سے طاقت اور قوت کے استعمال کے باوجود طالبان نے امریکی افواج کے انخلا کیلئے رد عمل کا سلسلہ جاری رکھا اور امریکی افواج سمیت نیٹو افواج کے پاؤں یہاں سے اکھڑتے چلے گئے بعد ازاں پاکستان کی معاونت سے امریکہ سے طالبان نے پہلے بالواسطہ اور پھر بلاواسطہ مذاکراتی عمل شروع کیا اور مذاکراتی سلسلہ قطر میں جاری رہا اور اس کے 9 ادوار ہونے کے بعد با قاعدہ یہ حتمی شکل اختیار کر گیا، لیکن صدر ٹرمپ ہی کے ایک ٹویٹ نے یہ سارا عمل ختم کر کے رکھ دیا، جہاں تک علاقائی فورسز خصوصاً بھارت کے طرز عمل اور کردار کا سوال ہے تو باوجود یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے بھارت یہاں امن کی بجائے دہشت گردی اور شدت پسندی کو ہوا دیتا رہا اور بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے درمیان پیدا شدہ گٹھ جوڑ علاقہ خصوصاً پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا، باوجود دہشت گردی کا نشانہ بننے کے پاکستان نے افغانستان میں امن کیلئے کوششوں اور کاوشوں کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ایک وقت میں افغانستان میں پیدا شدہ انارکی کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے والا امریکہ بال آخر پاکستانی مؤقف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوا اور مذاکرات کی میز پر آ گیا ،پاکستانی ریاست سمجھتی ہے کہ افغانستان میں امن خطے میں استحکام کے حوالے سے ناگزیر ہے ،اور اگر افغانستان میں امن یقینی بنتا ہے تو اس کے معاشی فوائد پاکستان کو ملیں گے ۔ لہٰذا پاکستان خود اپنے مفاد میں افغانستان میں امن کیلئے سرگرم تھا اور ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ میں افغان بارڈر پر پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ کا عمل بھی اسی بنیاد پر ہے کہ علاقہ دہشت گردی سے پاک ہو لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے امریکی کردار اہم ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور امریکی افواج کے انخلا کی صورت میں اپنی قوم کے سامنے سر خرو ہو سکتے ہیں۔