آئی ایم ایف شرائط ،منی بجٹ کی تیاری:گیس مہنگی اور پٹرولیم لیوی بڑھانے کا فیصلہ بجلی پر سبسڈی واپس لیں،وزارت خزانہ حکام نے مذاکرات میں تمام اہداف مکمل کرنیکی یقین دہانی کرادی

آئی   ایم   ایف   شرائط ،منی   بجٹ  کی   تیاری:گیس   مہنگی   اور   پٹرولیم  لیوی    بڑھانے   کا   فیصلہ    بجلی    پر   سبسڈی   واپس   لیں،وزارت   خزانہ   حکام   نے   مذاکرات   میں   تمام   اہداف   مکمل   کرنیکی   یقین   دہانی  کرادی

اسلام آباد(خبرنگارخصوصی،خصوصی نیوز رپورٹر ،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں)وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف قرض پروگرام کو ٹریک پر لانے اور شرائط پوری کرنے کیلئے کام شروع کردیا، حکومتی معاشی ٹیم نے مجوزہ منی بجٹ کا مسودہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئرکردیا۔

جلد گیس مہنگی کرنے اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں اضافہ سمیت تمام شرائط پوری کرنے کی یقین دہانی کرادی، آئی ایم ایف حکام کومشن پاکستان  بھیجنے کی درخواست بھی کردی جبکہ آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل بڑھانے ، بجلی پرسبسڈی ختم کرنے ، ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کے مطابق متعین کرنے کی شرائط عائد کردیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات شروع ہوگئے ہیں جن میں پاکستان کی ٹیکنیکل مذاکراتی ٹیم کی قیادت سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب خان اور آئی ایم ایف کی واشنگٹن میں ٹیم کی قیادت پاکستان مشن چیف ناتھ پورٹر نے کی ۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ کے حکام نے آئی ایم ایف کو منی بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات اور سیلاب سے متعلقہ منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات پر بریف کیا۔آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل بڑھانے ، بجلی پرسبسڈی ختم کرنے کی شرط عائد کی۔آئی ایم ایف نے کہا ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کے مطابق متعین ، انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کا فرق ختم کیا جائے ۔آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو اہداف اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا بجٹ میں رکھے گئے اہداف کو پورا کیا جائے ۔ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے بتایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم جولائی 2022 سے ہوگا، قیمتوں میں اضافے کی منظوری جلد ہی کابینہ دے گی، گیس کے شعبے کا گردشی قرض بھی ختم کیا جارہا ہے ، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی مرحلہ وار بڑھائی جا رہی ہے ۔

مذاکرات میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال کرنے پر اصرارکیا ۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف ورچوئل مذاکرات میں فی الحال ڈیڈلاک برقرار ہے ، مذاکرات میں نویں جائزہ کیلئے آئی ایم ایف مشن کے دورے کی تاریخ طے نہیں ہو سکی تاہم آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان مذاکرات آج بھی جاری رہیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف مشن کے دورے کی تاریخ کو حتمی شکل دینے سے قبل اپنے مطالبات کی منظوری چاہتا ہے ، مذاکرات کے اختتام پر تاریخ کو حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ہے ۔ خبر نگار خصوصی کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معیشت کے نویں جائزے کے ٹیکنیکل مذاکرات مکمل ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ موجودہ مالی سال میں ممکنہ ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے اور عام انتخابات سے قبل وفاقی بجٹ2023-24پر پیشگی مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں الیکشن کے سال میں اخراجات پر کنٹرول رکھ کر نہ صرف مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے بلکہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والی حکومت کو بھی معاشی اہداف کے حصول کیلئے مالیاتی نظم و ضبط کا پابند بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے ۔ پاکستان کا قرض پروگرام تکنیکی طور پر نئے وفاقی بجٹ2023-24کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا اور بجٹ کے اعلان کے بعد حتمی جائزے میں آئی ایم ایف نئی حکومت کیلئے بھی مشاورت کی فراہمی جاری رکھے گا ۔ٹیکنیکل مذاکرات کا مرحلہ آئندہ ہفتے مکمل کیا جائے گا، ان مذاکرات کے نتیجے میں اگر آئی ایم ایف کی ٹیم مطمئن ہوئی تو آئی ایم ایف کی مینجمنٹ جنوری کے آخری ہفتے یا فروری کے آغاز پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ پر مڈل ایسٹرن ریجن کے ڈائریکٹر جیہاد آزور، پاکستان کیلئے مشن چیف ناتھ پورٹر اور دیگر ماہرین پر مشتمل اعلیٰ سطح کا مشن پاکستان بھجوانے کی منظوری دے گا، پالیسی سطح کے مذاکرات میں موجودہ مالی سال کے باقی 5 ماہ کے دوران ٹیکس اہداف پورا کرنے کیلئے ہنگامی پلان کے تحت 200 سے 300 ارب کا اضافی ریونیو جمع کرنے کیلئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ لانے ، وفاقی ترقیاتی بجٹ پر نظرثانی کرکے 350ارب روپے کی کمی کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کم و بیش300ارب روپے سے لے کر 500ارب روپے کی بچت کا پلان آئی ایم ایف کوپیش کیا جائے گا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام ٹریک پر لانے کیلئے معاہدے میں طے شدہ شرائط پوری کرنے پر کام کا آغاز کردیا، توقع ہے کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن کی آمد سے قبل زیادہ تر شرائط پوری کردی جائیں گی۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے ، رواں ماہ آرڈیننس لاکر یکم فروری 2023 سے منی بجٹ پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا، ذرائع کے مطابق منی بجٹ کا مسودہ منظوری کیلئے ای سی سی اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے ۔ منی بجٹ میں بنکوں پرونڈ فال لیوی عائد کرنے ، بجلی ساڑھے 7 روپے مزید مہنگی کرنے اورگیس کی قیمتوں میں 74 فیصد اضافے کی تجویزہے ۔ میٹھے مشروبات اورسگریٹس پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی میں اضافے ، لگژری اشیا پراضافی ڈیوٹی عائد کرنے اور 70 ارب روپے کے لگ بھگ اشیا پردی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویزہے ۔منی بجٹ کے ذریعے درآمدات پر فلڈ لیوی عائد کی جائے گی، درآمدی خام مال اور فرنشڈ آئٹم پر فلڈ لیوی عائد کی جائے گی، درآمدی لگژری آئٹمز پر 3 فیصد تک فلڈ لیوی عائد کی جائے گی، جن درآمدی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی زیرو ہے ا ن پر ایک فیصد فلڈ لیوی عائد کی جائے گی، مقامی سطح پر بھی فلڈ لیوی عائد کئے جانے کا امکان ہے ، اس کے علاوہ نان فائلرز کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے تاہم ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل افراد پر مجوزہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ ایف بی آر کے حکام کا کہنا ہے کہ نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے 45 سے 50 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔مجوزہ صدارتی آرڈیننس کیلئے بعض دیگر تجاویز پر بھی کام جاری ہے ۔ ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم شہباز شریف کو منی بجٹ پر بریفنگ دے دی، ان تجاویز پر آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے ۔

اسلام آباد(سیاسی رپورٹر، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ملک بچانے کیلئے سیاسی قیمت چکانے کیلئے تیار ہیں، ملک کیلئے اپنی جان بھی دے دوں گا، آئی ایم ایف کو جائزہ مکمل کرنے کا پیغام دے دیا، وزیراعظم نے پرائم منسٹر یوتھ بزنس اینڈ ایگری لون پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کیلئے 75لاکھ تک قرضوں کا بھی اعلان کیا،انہوں نے کہا  یوتھ انٹرن شپ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو5 لاکھ تک بلا سود قرضہ دیا جائے گا، 5 سے 15 لاکھ تک قرض پر شرح سود صرف 5فیصد ہو گی اور واپسی کی مدت 7سال ہو گی،15سے 75لاکھ تک قرض پر 7فیصد سود ہو گا اور 8سال تک ادائیگی کرنا ہوگی، نواز شریف کے دور میں 54ہزار نوجوانوں کو 75 ارب روپے کے قرضے د ئیے تھے ، ہمارے نوجوانوں نے 99فیصد قرضے واپس کئے ، تنقید ہوتی تھی کہ لیپ ٹاپ سیاسی پوائنٹ سکورننگ ہے ، ماضی میں جواب دیتا تھا کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ نہیں تو کیا کلاشنکوف دے دیں؟ سٹیٹ بینک کہتا ہے کہ شرح سود کو بڑھانا ہے ، نوجوانوں کیلئے ایک لاکھ لیپ ٹاپ پروگرام بھی لا رہے ہیں، کہاں وہ زمانہ کہ ہم ایک سال میں دو دولاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کرتے تھے اورآج وہ ایک لاکھ کی سطح پرآئے ہیں ، یہ وہ چیلنج اورحقیقت ہے جومیں کروڑوں نوجوانوں کو مخاطب کرکے بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کھٹن مرحلے سے گزررہے ہیں، ہم نے آئی ایم ایف کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم نویں جائزہ کیلئے تیارہیں، ہم آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط پرمذاکرات کرکے اس کوحتمی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان آگے بڑ ھے اور چلے کیونکہ دائیں بائیں سے واضح پیغام دیا گیاہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور پاکستان کے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو حتمی شکل دیں ، میری آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے گزشتہ ہفتے بات ہوئی تھی اورآج بھی میں کہہ رہاہوں کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ بلاتاخیر نویں جائزہ مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ پروگرام آگے بڑھیں اور اس کے بعد ملٹی لیٹرل اور بائی لیٹرل شراکت داروں کے ساتھ بھی معاملات طے ہوں ۔ پاکستان کوبچانے کیلئے سیاست کو قربان کرنا ہوگا، میں ڈنکے کی چوٹ پراعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ن اورمخلوط حکومت اپنی ساری کی ساری سیاسی کمائی پاکستان اورپاکستان کی ریاست پرقربان کردیں گے ،زندگی میں اونچ نیچ دیکھی ہے ، میرے لیڈر اورپارٹی نے مجھے تین بار وزیراعلیٰ بنایا آج میں وزیراعظم ہوں ، ہم ورثہ چھوڑ دینا چاہتے ہیں کہ جو بھی مشکلات تھیں اور اگر ہم نے ذمہ داری قبول کی ہے تو اس کو نبھانے کیلئے آخری حد تک جانا ہم پر فرض ہے ، باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے اپنی جان دیدوں گا اورہرقدم اٹھائوں گا۔ مشکلات راستے میں آنی ہیں، ہمیں ایسے مقامات سے گزرنا ہوگا مگر حکومت اوراشرافیہ کو پہلے اپنی قربانی د ینا ہوگی اس کے بعد عوام اپنا حصہ ڈالیں گے ، یہ ممکن نہیں کہ غریبوں پربوجھ ڈالیں اورامرا قرضوں پر عیاشیاں کریں، یہ ناممکن ہے اورنہ ہی اس کی گنجائش ہے ۔ بدقسمتی سے 75سال میں ہم نے جو کچھ کیا اس کے نقصانات سب کے سامنے ہیں، میری حکومت، مارشل لا حکومتوں سمیت تمام حکومتوں کے ساتھ ساتھ اس حمام میں سب ننگے ہیں، سب کو اس کی ذمہ داری قبول کر نا ہو گی لیکن اب ہمیں ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔موجودہ حکومت کی جانب سے نوجوانوں کیلئے خوشخبریوں کی طویل فہرست ہے مگر پہلی خوشخبری کا آغاز آج ہورہاہے ، پہلی مرتبہ پیداوار یعنی سیڈز اورفرٹیلائزرکیلئے بیج فراہم کئے جائیں گے ۔2008 میں شہباز شریف نے نوجوانوں کیلئے کئی پروگرام شروع کئے ، سکلز ڈویلپمنٹ پر 115 ارب روپے خرچ کئے گئے ، اس میں خواتین کو ترجیح دی گئی ، ایگری کلچر کریڈٹ سکیم شروع کی گئی اور 18 ارب روپے دئیے گئے ، یوتھ انٹرن شپ پروگرام کے تحت 50 ہزار نوجوانوں کوانٹرن شپ فراہم کی گئی، نوجوانوں کو لیپ ٹاپس دئیے گئے جس نے پاکستان میں گائوں اوردیہات کا نقشہ تبدیل کیا، اس سکیم کا آغاز اب دوبارہ ہوگا۔نوازشریف نے 2013 میں پرائم منسٹریوتھ پروگرام شروع کیا،گوادرسے خنجراب تک نوجوانوں کو قرضے دئیے گئے ، پورے پاکستان میں ہنرسکھایاگیا، پانچ لاکھ سے زائد لیپ ٹاپس اوریوتھ لونز جاری ہوئے ۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے چارسالوں میں نوجوانوں کیلئے عملی طورپر کچھ نہیں کیا۔ بدکرداری ، بدزبانی عام کی گئی، سیاست کو ذاتیات پر لایاگیا۔ ہم نے نوجوان نسل کو ایک بہتر ماحول فراہم کرنا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان باہرنہ جائے بلکہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے ۔انہوں نے کہاکہ آج کا پروگرام نوجوانوں سے دئیے گئے وعدوں کاتسلسل ہے ۔ہماری کوشش ہے کہ آنیوالے سالوں میں نوجوانوں اورخواتین کو بااختیاربنا ئیں تاکہ وہ ملکی معیشت کا مفید حصہ بن سکے ۔گورنرسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا سکیم کوشفاف اورآسان بنایا گیاہے ، سٹیٹ بینک نے اس کے علاوہ ایس ایم ایز اورزراعت کیلئے 30 ارب تک ہدف بھی دیا ہے ، سکیم کے باضابطہ افتتاح سے پہلے ہی 14600 درخواستیں آئی ہیں ، اس سکیم کا اہم پہلویہ بھی ہے کہ اس سکیم میں کریڈٹ ریٹنگ اور رسک شیئرنگ کی سہولت بھی دی گئی ہے ، پی ایم پورٹل تک رسائی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے ۔انہوں نے کریڈٹ دینے والے اداروں پرزوردیا کہ وہ اس میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کویقینی بنا ئیں ۔انہوں نے مزید کہاکہ ایس ایم ایز کے فرغ کیلئے سٹیٹ بینک نے کئی اقدامات کئے ہیں، ہماری کوششوں کی وجہ سے بینکوں نے جاری مالی سال کیلئے ایم ایم ایز کے قرضوں کا 93 فیصد ہدف حاصل کرلیا ۔ انہوں نے کہاکہ سٹیٹ بینک نے ہمیشہ زرعی قرضوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ، سٹیٹ بینک اورحکومت اس حوا لے سے مل کرکام کرر ہے ہیں ۔سٹیٹ بینک نے موجودہ مالی سال کیلئے 1.83 ٹریلین کے زرعی قرضوں کا ہدف مقررکیاہے ۔دریں اثنا وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا ، کابینہ نے ملک میں بجلی کے نظام میں آنے والے بڑے تعطل کو مستقبل میں رونما ہونے سے روکنے اور اس کی وجہ بننے والے عوامل کے مستقل تدارک کے لئے جامع حکمت عملی کی تیاری کا حکم دیا جبکہ عوام کو بجلی، پانی ، گیس سمیت دیگر وسائل کی بچت کی عادت ڈالنے اور اس کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے اپنی نوعیت کی پہلی ملک گیر عوامی آگہی مہم کی منظوری دے دی ، توانائی کی بچت کی عادتوں کوعام کیاجائے گا اور عالمی سطح پر رائج طریقوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کیاجائے گا، سرکاری، نجی ، گھریلو اور تجارتی مقامات پر بجلی، گیس، پانی کی بچت سے پٹرولیم مصنوعات سے متعلق امپورٹ بل میں نمایاں کمی ہوگی جو گزشتہ 7 سال میں د گنا ہوچکا ہے ۔ توانائی کی بچت کے قومی رویے میں تبدیلی سے نہ صرف اربوں روپے کا غیرملکی زرمبادلہ بچے گا بلکہ انفرادی سطح پر عوام کے بل میں 30 سے 40 فیصد کی نمایاں کمی بھی ہوگی۔وزیراعظم نے ملک میں بجلی کے تعطل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور کاروباری برادری کو جس تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، وہ ناقابل قبول ہے ، مستقبل میں ایسے کسی واقعے کو برداشت نہیں کروں گا،ذمہ داروں کاواضح تعین کیا جائے ، کابینہ کو بتایاگیا کہ بجلی کے تعطل پروزیراعظم کی تشکیل کردہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ۔ کمیٹی تمام حقائق کا جائزہ لے کر جامع رپورٹ پیش کرے گی۔ وزیر توانائی نے کابینہ کو بتایا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ صبح 7بجکر 34 منٹ پر نارتھ سائوتھ ٹرانسمیشن لائن میں فنی خرابی، برقی رو میں اچانک آنے والے اتارچڑھائو اورفریکوئنسی میں تعطل کے نتیجے میں ہوا جس کے بعد بجلی کا ترسیلی نظام خودکارحفاظتی نظام کے تحت بند ہوگیا،جس کے بعدبحالی کا کام شروع کیا گیا، نیوکلیئر اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر وں کے سوا تمام پاور پلانٹس سے معمول کے مطابق بجلی کی بلا تعطل پیداوار جاری ہے ، وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کابینہ کو توانائی کی بچت کے لئے قومی آگہی کی مہم پر تفصیلی بریفنگ دی،انہوں نے کہا اس مہم سے پہلے وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جامع سروے کیا جس کے تحت لوگوں میں توانائی کی بچت کے اقدامات سے آگاہی کے بارے میں رائے حاصل کی گئی، سروے کے نتائج اور لوگوں کے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کی طرف سے ایک خصوصی طویل مدتی آگاہی مہم تیار کی گئی جس میں لوگوں کی عادات، طرز زندگی، سوچ اور رویوں کو بدلنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی، اس سلسلے میں پرنٹ، الیکٹرانک، آئوٹ ڈور، سوشل میڈیا اور رائے عامہ بنانے والے افراد اور ماہرین کی مدد لی جائے گی،یہ مہم ہر شعبے ، طبقے اور عمر کے افراد کے رجحانات ، دلچسپی اور میڈیا کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کی جارہی ہے ، یہ مہم سرکاری و نجی اداروں کے اشتراک عمل سے چلائی جائے گی، اس مہم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بطور پاکستانی ہر شہری کو یہ احساس دلایا جائے گا کہ وہ بجلی، گیس اور پانی کی بچت کرے جس سے نہ صرف اس کا ذاتی طور پر فائدہ ہوگا بلکہ مجموعی طور پر پاکستان پر معاشی دبائوکم کرنے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔کابینہ نے وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے پیش کی گئی بریفنگ کو سراہتے ہوئے اس کی منظوری دی اور اس ملک گیر مہم کو جلد ازجلد چلانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے دیگر وزارتوں کو اس مہم میں وزارت اطلاعات کی بھرپور معاونت کی بھی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نگران حکومتوں کو بھی توانائی بچت منصوبوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے تاکہ تمام صوبائی حکومتوں کے اشتراک عمل سے توانائی کی بچت کے مختلف اقدامات پر ملک بھر میں سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے ۔وفاقی کابینہ کو توشہ خانہ کے حوالے سے بنائی گئی بین الوزارتی کمیٹی کی سفارشات پر مبنی جامع رپورٹ پیش کی گئی۔ کمیٹی نے توشہ خانہ کی نئی پالیسی کا مسودہ بھی کابینہ اجلاس میں پیش کیا ۔ وفاقی کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات اور نئی توشہ خانہ پالیسی پر اپنی تجاویز پیش کیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ان تجاویز کی روشنی میں بین الوزارتی کمیٹی اپنی رپورٹ میں ترامیم کرکے آئندہ کابینہ اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کرے ۔وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 3 جنوری 2023 اور 11 جنوری 2023 میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کردی۔ وفاقی کابینہ نے سی سی ایل سی کے 6 جنوری 2023 کے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کردی۔علاوہ ازیں شہباز شریف سے ارکان قومی اسمبلی شہباز بابر ،اظہر قیوم نہرہ، ساجد مہدی نے الگ الگ ملاقاتیں کیں ، اس دوران متعلقہ حلقوں کے امور اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی ،ارکان نے عوامی مسائل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ۔وزیراعظم سے معاون خصوصی براے تخفیف غربت و سوشل سیفٹی فیصل کریم کنڈی نے بھی ملاقات کی ۔وزیر اعظم آفس ذرائع کے مطابق ملاقات میں وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کے امور اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں