چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کیلئے قانون سازی:عدلیہ کی سیاست میں بےجا مداخلت سے عدم استحکام:قومی اسمبلی میں حکومتی قرارداد منظور

چیف  جسٹس  کے  اختیارات  میں  کمی  کیلئے  قانون  سازی:عدلیہ  کی  سیاست  میں  بےجا مداخلت  سے  عدم  استحکام:قومی  اسمبلی  میں  حکومتی  قرارداد  منظور

اسلام آباد(سیا سی رپورٹر،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے قانون سازی کیلئے بل کی منظوری دے دی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔

 جو آج منظور ہونے کا امکان ہے ،قومی اسمبلی نے عدلیہ سے متعلق قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر لی جس میں کہا گیا سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت سیاسی عدم استحکام کا باعث ہے ۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی میں پیش کیا ۔بل میں تجویز کیا گیا ہے سوموٹو کا فیصلہ چیف جسٹس خود نہیں کرسکیں گے ،بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کی کمیٹی کریگی ، کمیٹی ہی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم 3 رکنی بینچ کو بھجوائیگی۔کابینہ کی طرف سے منظور کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیاہے ۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے ۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے ، جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا ۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔اس میں کہا گیا ہے ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔بل میں کہا گیا اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا ہم نے وہ دور بھی دیکھا ہسپتال میں پارکنگ سہولیات نہ ہونے پر سوموٹو نوٹس لیے گئے ، ازخود نوٹسز پر کافی تنقید ہو رہی ہے ،سپریم کورٹ کے موجودہ رولزمیں سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے ، ماضی میں فرد واحد نے اس اختیار کو ایسے استعمال کیا جس سے ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا، 2018 میں بار کونسل نے کہا پارلیمان اس بارے سوچے ، بینچز کی تشکیل کیسے ہونی چاہیے ۔ وزیر قانون نے کہا لوگوں کیساتھ بہت ناانصافیاں بھی ہوئیں، اگر سپریم کورٹ سے فیصلہ آئے تو انٹرا کورٹ اپیل بھی ہونی چاہیے ، ماضی میں بعض ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا سبب بنے ، گزشتہ روز 2 ججز صاحبان کے موقف نے تشویش کی لہر پیدا کر دی۔اعظم تارڑ نے کہا ایک اندیشہ پیدا ہوگیا کہیں خدانخواستہ فرد واحد کے اختیار سے اعلیٰ عدلیہ کی شہرت کو کوئی نقصان نہ پہنچے ، ہم نے اصلاحاتی بل پیش کیا ہے ۔اس وقت ایک بحرانی کیفیت ہے ۔انہوں نے کہا یہ اہم ترین بل ہے ، اس کو کمیٹی کو ریفر کر دیا جائے ، بغیر کمیٹی کے بہت اہم بل بھی پاس کیے گئے ہیں، یہ توپانچ شقوں کا بل ہے اس کو کمیٹی کو بھیج کر آج ہی پاس کیا جائے ۔سپریم کورٹ کے قواعد وضوابط میں ترمیم اور وکلا کے تحفظ اور بہبود سے متعلق بل بھی پیش کیا گیا۔سپیکر نے دونوں بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کوبھجوا دیئے ۔ قبل ازیں حکومتی رکن برجیس طاہر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے اس پر مزید غور کی ضرورت ہے ۔میری رائے ہے یہ بل مزید مشاورت کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجا جا ئے ۔تحریک انصاف کے منحرف ظفر ڈھانڈلہ نے بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا قانون سازی اپنی جگہ عام آدمی کے لئے بھی حکومت اقدامات کرے ۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے آج بدھ کو اراکین کا اجلاس طلب کرلیا جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔اجلاس کی صدارت چیئرمین محمود بشیر ورک کریں گے ۔

ذرائع نے بتایا قائمہ کمیٹی قانون و انصاف آج ہی بل منظور کرکے ایوان میں رپورٹ دے گی جس کے بعد قومی اسمبلی عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی حتمی منظوری دے گی اور پھر مجوزہ بل جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے ، الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہ کرنے اور اجتماعی دانش کے حامل دستوری معاملات کی سماعت فل کورٹ کے ذریعے کرنے کی قرارداد قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جو اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا یہ ایوان سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے ۔ یہ ایوان ازخودنوٹس کیس 1/2023 میں چار جج صاحبان کے فیصلے ، رائے کی تائید اور اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے توقع رکھتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔ یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد، خود مختار آئینی ادارہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے ، الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے اور الیکشن کمیشن کو اس کی صوابدید کے مطابق سازگار حالات میں الیکشن کرانے دیا جائے ۔ قرارداد میں کہا گیا یہ ایوان یہ بھی قرار دیتا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے ۔ یہ ایوان سمجھتا ہے آرٹیکل 218 کی رو کے مطابق شفاف اور آزادانہ انتخابات کیلئے آرٹیکل 224 پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت غیر جانبدار نگران حکومتوں کے تحت ہونے چاہئیں تاکہ حقیقی سیاسی استحکام کی طرف بڑھا جا سکے ۔ قرارداد میں کہا گیا یہ ایوان قرار دیتا ہے وہ دستوری معاملات جن میں اجتماعی دانش درکار ہو اور اس کا مطالبہ بھی آ جائے ، ایسے معاملات کی سماعت عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ کرے ۔ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔قبل ازیں وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں عدالتی اصلاحات کے لئے قانون سازی کے مسودہ کی منظوری دی گئی ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ قانون سازی پر بریفنگ دی، وزیر قانون نے اعلیٰ عدلیہ کے بے پناہ اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی ۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے ارکان نے قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم کے خطاب پر انہیں خراج تحسین پیش کیا، کابینہ ارکان نے کہا وزیر اعظم نے عوامی امنگوں کی درست ترجمانی کی، اس موقع پر وفاقی کابینہ ارکان نے پارلیمنٹ کی مضبوطی اور بالادستی کے عزم کا اعادہ کیا۔

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،سیاسی رپورٹر، مانیٹرنگ  ڈیسک،دنیا نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ آئین اور قانون کو نہ ماننے والے سے بات نہیں ہو سکتی ۔ پہلے وہ قوم سے معافی مانگے ،کل سپریم کورٹ کے دو ججز کا فیصلہ آیا، عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہیں، اگر کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہیں کی تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا،کتنے ججوں کو کرپشن پر نکالاگیا،سیاستدان سالوں اپنے خلاف کیسز پر رل جاتے ہیں ، آج ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ قانون و آئین کی پیروی کرنی ہے یا جنگل کا قانون چلے گا، جب عدل ہوتا نظر آئے گا تو ملک سے خطرات کے بادل چھٹ جائیں گے ،آئین نے اداروں کے درمیان پاور کی تقسیم کی، اس نے ریڈلائن لگادی کہ اس لائن کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا مگر تاریخ کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں، آج آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے ، آئین میں موجود مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا، چاہے کتنے بھی نوٹس ملتے ہیں اسے آناً فاناً رات کے اندھیرے میں مختلف عدالتوں میں ضمانتوں پر ضمانتیں اور توسیع ملتی ہے ، وہ عدلیہ کا مذاق اڑاتا ہے ، ایک سٹنگ خاتون جج کے بارے میں اس نے کیا کہا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔

حقائق پر مبنی مقدمات بنے ہیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا اس آئین نے ہماری مذہبی روایت کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے ، 1973کے آئین پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور سیاسی رہنماؤں کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں، ذاتی پسند اور ناپسند ایک طرف رکھ کر آئین بنایا گیا۔انہوں نے کہا جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمارے خلاف بددیانتی سے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ، ایک قوم کی بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا کسی نے نوٹس نہیں لیا، آج ایک لاڈلہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تکبر کے ساتھ بات کرتا ہے ، قانون اور آئین کو اس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے ، یہ وہی لاڈلہ ہے جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا، اس کے حواریوں نے سپریم کورٹ کے باہر گندے کپڑے لٹکائے تھے مگر اس کے باوجود تنخواہ جیب میں ڈالتا رہا۔جب ہم اپوزیشن میں تھے کس طریقے کے ساتھ اپوزیشن کے زعما اور ان کے خاندان کے لوگوں کے ساتھ سلوک کیا گیا، کس بددیانتی سے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بناکر جیلوں میں بھجوایا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، قوم کی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا تو کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ شہباز شریف نے کہا اس لاڈلے کی حکومت کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا اس کو تار تار میں نے نہیں کیا، میری حکومت نے وعدہ خلافی نہیں کی، عمران نیازی نے معاہدہ کیا اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا، بڑی مشکل سے اس مخلوط حکومت نے شبانہ روز کوشش کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا۔انہوں نے کہا آج بھی ہم آئی ایم ایف کے ساتھ انگیج ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں، آئی ایم ایف قدم قدم پر ہم سے گارنٹی لیتا ہے جو ہم دے رہے ہیں، وزیر خزانہ نے تمام شرائط مکمل کردی ہیں، اب کہا جا رہا ہے دوست ممالک سے کمٹمنٹ کو پورا کیا جائے ، وہ بھی ہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آج قوم میں تقسیم در تقسیم ہے مگر اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ، لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون اپنا راستہ لے گا۔

بہت ہوگیا پلوں سے پانی بہت بہہ گیا، کبھی کسی نے یہ منظر دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے جائیں تو ان پر پٹرول بم پھینک دئیے جائیں، گاڑیوں کو آگ لگادی جائے ۔کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ضمانتوں پر ضمانتیں ملیں، یہ جنگل کا قانون ہے ، یہ آئین کو دفن کرنے کی مذموم سازش ہے ، کیا ایوان اور قوم اس کی اجازت دے گی۔آج نیازی دہشتگردوں کو اپنی شیلڈ بنارہا ہے ، یہ بات ہوا میں نہیں کررہا، ویڈیوز اور تصویریں دیکھیں اس کے گھر میں دہشتگرد دندنارہے ہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں، ضمانتوں پر ضمانتیں دی جارہی ہیں، ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا، ایوان سے گزارش ہے کہ ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا چناؤ ہوا، بلا خوف اس بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں ، کابینہ اور اس سے ہٹ کر پوری مشاورت کے ساتھ میرٹ پر یہ فیصلہ کیا، مجھے جو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کابینہ سے مشاورت کرتا ہوں، باقی اداروں کو بھی کابینہ میں جاکر فیصلے کرنے چاہئیں، یہ کام ہم کر رہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے ۔انہوں نے کہا اتحادی جماعتوں نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو داؤ پر لگادیا۔انہوں نے کہا پچھلی حکومت کے نتیجے میں پاکستان کے قرضے 70 فیصد بڑھ گئے ، ایک نئی اینٹ نہیں لگائی، اینٹیں اکھاڑیں اور منصوبوں کو برباد کیا، دو کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا مگر مہنگائی، افلاس اورکرپشن کے انبار لگادئیے ، ملک میں بڑے بڑے افلاطون اور ڈرامے باز آئے ہوں گے لیکن ایسا ٹوپی ڈرامہ نہیں آیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلادیں، 11 ماہ گزرگئے ہم دوست ممالک کو راضی کرنے میں لگے ہیں، امریکا سے بہتر تعلقات کی کوشش کررہے ہیں جو تباہی خارجہ محاذ پر اس نے کی وہ بیان نہیں کرسکتا، کس طرح برادر ممالک کو ناراض کیا گیا، ہم اسی پر لگے ہوئے ہیں جو ہوگیا اسے جانے دیں، وہ ایک غیر سنجیدہ آدمی تھا، اس نے چین کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا، اب اسی عمران نیازی نے امریکا میں لابنگ کمپنیز ہائر کی ہیں، پاکستان کے خلاف ناٹک رچایا جارہا ہے ، کچھ لوگوں سے بیانات دلوائے جارہے ہیں، جنہوں نے بیان دیا ان کو کیا حق پہنچتا ہے وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہم نے فیصلہ کیا جنرل عاصم منیر کو سپہ سالار اورجنرل ساحر شمشادکو چیئرمین جوائنٹ چیفس بنایا جائے ، یہ دونوں فیصلے 100 فیصد میرٹ پر تھے ، سپہ سالار حافظ قرآن بھی ہیں، پی ٹی آئی کے ٹرولز لندن میں جو وحشیانہ زبان استعمال کررہے ہیں ہماری افواج کی لیڈر شپ پر یہ کبھی 75 سال میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا ، آج ہندوستان سے زیادہ کون خوش ہوگا، ہمارے دشمنوں کو اور کیا چاہیے ، کس طرح لسبیلہ کے شہدا کے بارے میں باتیں کی گئیں بتا نہیں سکتا، جس پاکستان نے بنایا آج دشمن سے بڑھ کر اس پر وار ہورہے ہیں ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے ، اس سے پہلے دیر ہوجائے ایوان کو اس پر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا ابھی ایک آڈیو آئی ہے جس میں سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں چیزیں سامنے آئی ہیں، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ آڈیوکا فرانزک کروائیں، پوری قوم کوپتا چلنا چاہیے کہ ججزسے متعلق آڈیوسچی ہے یا جھوٹی ہے ، اگرججز سے متعلق آڈیو سچی ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے ۔واٹس ایپ کے ذریعے ججوں کو تبدیل کیا جاتا ہے ، جاننا چاہتا ہوں اعلیٰ عدالتوں کے کتنے جج کرپشن پر نکالے گئے ہیں، ہمارے ہاتھ باندھ کرعدالتوں میں کھڑا کیا جاتا تھا، تحکمانہ انداز میں ڈکٹیٹ کیاجاتا تھا، اگریہ نظام انصاف ہے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے ۔

انہوں نے کہا ترازو کا جھکاؤ ایک طرف چلا گیا ہے ، رات 11 بجے عدالتیں کھلتی ہیں اور ضمانتیں ہوجاتی ہیں، صبح، شام عدالتیں کھلتی ہیں اورضمانتیں مل جاتی ہیں۔وزیر اعظم نے کہا فارن فنڈنگ ثبوت سٹیٹ بینک نے دیئے ، فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے سابق ممبر نے ان پر کیا ہم نے نہیں، عمران نیازی نے منی لانڈرنگ کی تھی، چیریٹی کا پیسہ چیریٹی کے بجائے عمران خان اور حواریوں کی جیبوں میں گیا، توشہ خانہ گھڑی کی رسیدیں دی گئیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، تمام حقائق کے باوجود عدالتوں سے ضمانتیں دی جارہی ہیں، اگر یہ انصاف ہے تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے ۔انہوں نے کہا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے گئے ، اگر کوئی اور کرتا تو کالا پانی بھیج دیا جاتا یا دیوار میں چنوا دیا جاتا، قوم کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے اسے پار لگانا ہے ، کون لوگ تھے جنہوں نے دہشتگردوں کو سپانسر کیا ان دہشت گردوں کو کون لے کر آیا اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، جوڈیشل کمپلیکس واقعہ کی جے آئی ٹی بن چکی ہے جو اصل حقائق سامنے لیکر آئے گی، یہ وہ جے آئی ٹی نہیں ہے کہ ثاقب نثار صاحب نے پاناما کو اقامہ بنایا۔ ایوان کو اس شخص سے متعلق فیصلہ کرنا ہوگا، 2018 کا جو جھرلو چلا اس کی داستانیں قوم کے سامنے ہیں، آر ٹی ایس کو بٹھا دیا گیا، جھرلو الیکشن اس ملک کی بدقسمتی بن گیا، لاڈلے کو جھرلو سے جتوا کر پذیرائی کی گئی۔ انہوں نے کہا عمران خان توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچتا رہا اور ان کی اہلیہ ہیرے جواہرات اکٹھے کرتی رہیں ۔انہوں نے کہا اس شخص میں پتھر کا دل ہے پاکستانیت نہیں، عمران نیازی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈیا ہے جو ریاست مدینہ کے نام پر دھوکا دے ، آئین اور قانون نہ مانے اس سے بات نہیں ہوسکتی، عمران نیازی پوری قوم سے اپنے ڈاکوں ،چوری، عدلیہ اور چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف بے سروپا باتیں کرنے کی معافی مانگے اس کے بعد مل کر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ شہباز شریف نے کہا قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے وہ فیصلے کریں کہ آئندہ نسلیں یاد رکھیں، اجتماعی دانشمندی سے ہمیں یکجا ہوکر فیصلہ کرنا ہوگا۔شہباز شریف نے کہا انتخابات کے از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا انتخابات سے متعلق فیصلہ 4 اور تین ججز کا فیصلہ ہے ، دونوں معزز ججز نے انتہائی اہم نکات اٹھائے ، پارلیمان سپریم کورٹ کے ججز کے کل کے فیصلے کو دیکھے کہ اس پر ہم کیا قانون سازی کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی نئی کرن ہے ، کل کے فیصلے کے بعد ہم نے قانون سازی نہ کی تو مورخ معاف نہیں کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں