انتخابات کیلئے رقم رکھ دی،حکومت کی ایک سال تو سیع کی کوئی نیت نہیں،اگر اتحادی رہنماؤں نے بیانات دیئے ہیں تو آئین میں گنجائش موجود:الیکشن میں تاخیر کی باتیں غیر آئینی نہیں:وزیر خزانہ

انتخابات  کیلئے  رقم  رکھ  دی،حکومت  کی  ایک  سال  تو سیع  کی  کوئی  نیت  نہیں،اگر  اتحادی  رہنماؤں  نے  بیانات  دیئے  ہیں  تو  آئین  میں  گنجائش  موجود:الیکشن  میں  تاخیر  کی  باتیں  غیر  آئینی  نہیں:وزیر  خزانہ

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، نیوزایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا انتخابات کیلئے رقم رکھ دی ، حکومت کی ایک سال توسیع کی کوئی نیت نہیں ،اگر اتحادی رہنماؤں نے بیانات دئیے ہیں تو آئین میں گنجائش موجود،الیکشن میں تاخیر کی باتیں غیر آئینی نہیں ، ہوسکتاہے آئی ایم ایف کی قسط نئی حکومت کو ملے۔

 ہمیں قسط نہ ملنے کی وجہ غیر معاشی ہے اس پر کھلے عام بات نہیں ہوسکتی،آئی ایم ایف بجٹ  سے خوش نہ ہوتا تو فون آچکا ہوتا، ایڈہاک ریلیف الاؤنس بنیادی تنخواہ میں فی الحال ضم نہیں ہوگا، دودھ پر 10فیصد سیلزٹیکس لگایا نہ خوردنی تیل پر ختم کیا، پٹرولیم لیوی 50روپے لٹر سے فوری بڑھانے کا ارادہ نہیں ہے ۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا مشکل فیصلوں کے ذریعے معیشت کی گراوٹ کا عمل رک چکا ہے ، معیشت کی بحالی کے بعد اب معیشت کو نمو کی طرف لیکر جانا ہے اور اسے دوبارہ دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانا ہے ،پاکستان کو ایٹمی طاقت کے بعد اب معاشی قوت بنانا ہے ، معاشی ترقی اور بجٹ کے تمام اہداف قابل حصول اور عملی ہیں، وفاق اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر حقیقی معنوں میں عمل ہوا تو 3.5فیصد کے نمو کا ہدف آسانی سے حاصل کر لیں گے ، ہمارا بنیادی ہدف 2017 کے معاشی اشاریوں کو دوبارہ حاصل کرنا ہے ، بجٹ میں اعلان کردہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس بنیادی تنخواہوں میں فی الحال ضم نہیں ہوگا اور مستقبل میں جب حکومت کے پاس گنجائش ہوگی تو انہیں ضم کر کے پے سکیل ریوائز کر دئیے جائیں گے ۔خوردنی تیل پر جنرل سیلز ٹیکس ختم نہیں کیا گیا یہ بدستور لاگو رہے گا ، تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو ہم نے انڈسٹری سے کہا ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے تاہم پیکٹوں میں بند دودھ خواہ وہ کسی بھی برانڈ کا ہو، اس پر18فیصد جنرل سیلز لگا دیا گیا ہے اس طرح کھلا دودھ جو90فیصد ہے بدستور جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ رہے گا اور پیکٹوں میں بند 10فیصد دودھ پر جنرل سیلز ٹیکس لگے گا،پراسیسڈ دودھ پر سیلز ٹیکس کی تجویز تھی مگر اس کی منظوری نہیں دی گئی کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ اگر پراسیسڈ دودھ پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تو ملک بھر میں گوالے تازہ دودھ کی قیمت میں بھی 10 فیصد اضافہ کرینگے ۔ انہوں نے کہا جو سمندر پار پاکستانی50ہزار ڈالر بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھجوائیں گے ان کیلئے ملک واپسی پر ٹیکس اور ڈیوٹی مراعات میں اضافہ کیلئے ڈائمنڈ کارڈ متعارف کروایا جا رہا ہے ۔

3 اسلامی قومی بچت سکیموں کا اجرا یکم جولائی سے کر دیا جائے گا۔ پٹرولیم لیوی کے قانون میں ترمیم کا مقصد فوری طور پر پٹرولیم لیوی 50روپے فی لٹر سے بڑھانے کا نہیں ہے تاہم مستقبل کیلئے یہ ترمیم کی گئی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا غریبوں کیلئے پٹرول50روپے سستا اور امیروں کیلئے 50روپیہ مہنگا رکھنے کی سکیم آئی ایم ایف کو ہضم نہیں ہوئی حالانکہ اس سے بجٹ سے ایک پائی خرچ نہیں ہونا تھی،یہ تجویز معقول تھی تاہم اس پر مستقبل میں بھی غور ہو سکتا ہے ،اس میں 800سی سی سے کم کی شرح51 فیصد اور زائد کی شرح49فیصد بنتی ہے یہ انتظام ممکن ہے ۔انہوں نے بتایا سمندرپار پاکستانیوں کیلئے جائیداد کی خریداری پر2فیصد ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ ٹیکس ہدف میں بھاری اضافہ کس طرح حاصل ہونا ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا مہنگائی کی شرح21فیصد اور معاشی ترقی کا ہدف3.5فیصد پورا ہونے کی صورت میں 1800ارب روپے خود بخود مل جائیں گے اور جو200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں یہ ان لوگوں پر لگائے گئے ہیں جو انکم ٹیکس پیئرز کی لسٹ میں شامل نہیں ہیں، نیٹ سے باہر رہنے کی کچھ تو سزا انہیں ملنی چاہیے اور اس کی اضافی قیمت بھی انہیں ادا کرنی چاہیے ،ماضی میں بینکوں سے یومیہ50ہزار روپے سے زائد رقم نقد صورت میں نکلوانے پر 0.6فیصد ٹیکس بلا جواز ختم کیا گیا اس کو بحال کر دیا گیا ہے ، بیوائوں کیلئے ہائوس بلڈنگ کے قرض کی معافی کی سکیم ماضی میں حکومت نے شروع کی تھی اس سال ہم اسے بحال کر رہے ہیں، ہیلتھ انشورنس کارڈ سکیم صحافیوں کیلئے شروع کی جا رہی ہے امید ہے یہ ان کیلئے ایک اچھا ریلیف ہوگا، بجٹ کے اعلان کے بعد کچھ ابہام اور کچھ شعبوں کیلئے مشکلات بڑھنے کی شکایات سامنے آئی ہیں، ہم نے کاروباری برادری کی مشکلات کے ازالہ کی سفارشات کیلئے ایف بی آر میں دو کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری سے قبل اپنی سفارشات ہمیں دے گی جس کی روشنی میں ہم کاروباری افراد کیلئے ریلیف کا اعلان بجٹ سمیٹنے کے موقع پر کریں گے ۔ وزیر خزانہ نے کہا پاکستان پیرس کلب کے یورپی رکن ممالک،عالمی مالیاتی اداروں، ترقیاتی مالیاتی اداروں اور عالمی کمرشل بینکوں کے قرضے ری شیڈول نہیں کروائے گا،اس وقت ملک میں شرح سود22فیصد ہے ، اس قرض کو تب ری شیڈول کرواتے جب یہ شرح سود6فیصد تھی، اس وقت10سال سے 15سال کیلئے ری شیدول کروا لیتے ، اب 22فیصد پر ری شیڈولنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تمام ملکی اور غیر ملکی قرض کی ادائیگیاں بدستور جاری رکھی جائیں گی تاہم پاکستان اپنے انفرادی دوست ممالک کے دو طرفہ قرضوں کی ادائیگی میں مہلت کیلئے ان کی ری شیدولنگ اور ان کے قرضوں کو روول اوور کروائے گا اور ان پر سود اور سروس چارجز ادا کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا ہر سہ ماہی کے شروع میں قرضے لے کر سہ ماہی کے آخر تک اس کی ادائیگی کی سہولت ختم کئے جانے کے بعد کمرشل بینکوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اس کی اصلاح ہونی چاہیے ۔

انہوں نے کہا عام انتخابات کیلئے بجٹ میں 42ارب روپے رکھ دئیے گئے ہیں، اس کا مطلب ہے الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں،کوئی بد نیتی نہیں ہونی چاہیے ، عام انتخابات میں مزید ایک سال کیلئے التوا حکومت کی سوچ نہیں ،حکومت نے کبھی نہیں کہا الیکشن میں تاخیر ہوگی، ہماری دو اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے بیانات میں نے خود دیکھے ہیں یہ ان کا خیال ہو سکتا ہے ،اگر ہمارے ایک لیڈر نے بھی اس بیان کی حمایت کی ہے تو یہ ان کی ذاتی رائے ہوگی،ماضی میں دو بار عام انتخابات موخر ہو چکے ہیں ،شق ا ٓئین میں موجود ہے ،الیکشن میں تاخیر کی باتیں غیر آئینی نہیں ہیں ،اتحادی الیکشن تاخیر کی بات کرتے تو انہیں ڈٖکٹیٹ نہیں کر سکتے ، رقم مختص کرنے سے ہماری نیت ظاہر ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا اگر آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو اب تک آئی ایم ایف کے مشن چیف کا فون آ چکا ہوتا، پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے 9ویں جائزے میں وہ ٹیکس اصلاحات کی ہیں جو دو سال میں ہونی تھیں،ہم نے دو سال میں عمل میں لائی جانے والی مشکل معاشی اصلاحات8ماہ میں مکمل کی ہیں جس کے سبب حکومت کو سیاسی قیمت اور عوام کو تکلیف دہ بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے ، آئی ایم ایف کی اگلی قسط ہمیں اب ملنی چاہیے ، نہ ملنے کی وجہ غیر معاشی ہے جس پر کھلے عام بات نہیں ہو سکتی، ہو سکتا ہے کہ وہ آنے والی نئی حکومت کو ملے جو موجودہ قسط سے زائد ہو سکتی ہے ،اس قسط کے نہ ملنے کی صورت میں بھی حکومتی تیاریاں مکمل ہیں ، پلان بی خود انحصاری ہی ہے ، اگر ہم چند سال قبل اتنے ہی قرضے لیتے جتنے آسانی سے ادا کر سکتے تو آج موجودہ قرضوں کے بھنور میں نہ پھنستے ، اپنے وسائل کے اندر رک کر جینا اب سیکھ لینا چاہیے ہم خود مختار ملک ہیں۔ انہوں نے سابق حکومت کی کارپوریشنوں کے ملازمین کی پنشن وزارت خزانہ کے بجٹ سے ادا کرنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کی اور بتایا کہ یہ کارپوریشنیں اپنے منافع کمائیں اور ملازمین کی پنشن ادا کریں۔انہوں نے بتایا ڈیزل اور پٹرول کی قیمت میں کمی کے بعد مسافر ٹرانسپورٹ اور مال برداری کے کرایوں میں نمایاں کمی ہونی چاہیے ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ سندھ نے ٹرانسپورٹروں سے بات چیت کر لی ہے ۔انہوں نے بتایا بجٹ میں دفاعی اخراجات کیلئے 1807ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جو جی ڈی پی کے 1.7فیصد ہے اور پڑوسی ملک سے کہیں کم ہے ۔ملک میں نجکاری پروگرام کی بحالی کے بارے میں ایک سوال کے بارے میں انہوں نے بتایا دنیا کے 12ممالک نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ایئر پورٹ سروسز کی فراہمی کیلئے لیز پر لینے کی خواہش ظاہر کی ہے ، امید ہے پہلے ایئر پورٹ کی لیزنگ کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں سے اظہار دلچسپی کی درخواستیں جولائی میں طلب کر لی جائیں گے اور جولائی میں ہی ایک بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنی کیلئے اظہار دلچسپی کی درخواستیں طلب کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بجلی گھروں نے ڈالر میں سرمایہ کاری کی اور وہ منافع بھی ڈالروں میں باہر لے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا بجٹ میں پاور سیکٹر کیلئے 1000ارب روپے کی سبسڈی ہماری برداشت سے باہر ہے ،بقایا جات کی وصولیوں کے حوالے سے آئیسکو اور فیسکو بہترین ہیں،ایک ڈسکو میں بجلی چوری اور نقصانات کی شرح کم ہونے سے ان کا ٹیرف15روپے اور جن میں نقصانات زیادہ ہیں ان میں یہ شرح 16روپے سے 24روپے فی یونٹ ہے ، اگر تمام یونٹوں کیلئے یہ شرح اوسط کر کے وصول کر لی جاتی تو اس قدر بھاری سبسڈی نہ دینا پڑٹتی تاہم اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے بتایا پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد سال2006میں جو نظرثانی کا معاہدہ ہوا اس کے سبب تمام مشکلات پیدا ہوئیں، ہم ان سے پی ٹی سی ایل کی بقیہ80 کروڑ ڈالر کی بقیہ رقم مانگ رہے ہیں اور وہ ہمیں جو جائیداد حوالے نہیں کی جا رہیں ان کی قیمت کاٹ کر بقیہ ایک چوتھائی رقم دینے کے خواہاں ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں طرف کے اطمینان کے مطابق مسئلہ کا حل نکل آئے ۔انہوں نے کہا پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے ، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائے گی، آبادی کی شرح 3.6 فیصد پہنچنے پر شدید تحفظات ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کافی اجلاس ہو رہے ہیں، ہم علما سے مل کر آبادی کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملک میں غذائی قلت میں کمی کیلئے حکومت اقدامات کرے گی، بچوں کے سکول میں داخلے کیلئے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے ،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے نمبرز کچھ زیادہ رپورٹ ہوئے ، حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا حکومت نے کھاد سازی کے کارخانوں کو مزید 3 ماہ یعنی 31 اگست تک گیس کی فراہمی کی منظوری دی ہے ، اس کا بنیادی مقصد ملک میں کھادوں کی سستی قیمتوں پر فراہمی ہے ۔لیپ ٹاپ سکیم کے تحت جولائی میں پہلی کنسائمنٹ آ رہی ہے ، اگلے سال ایک لاکھ طلبہ کو میرٹ پر لیپ ٹاپ فراہم کئے جائیں گے ،کم سے کم اجرت کے حوالے سے نجی شعبہ میں جہاں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا اس کی نشاندہی کی جائے ، میڈیا مالکان سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اس پر پہلے خود عمل کریں اور پھر دوسروں کو ترویج دیں، سول سوسائٹی بھی کم سے کم اجرت کی ادائیگی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے ، حکومت کو شکایات بھیجی جائیں، سکیورٹی گارڈز کو کم سے کم اجرت پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے وزارت داخلہ کے ذریعے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں