نواز شریف کی پارٹی صدارت ، فیصلہ اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا

نواز شریف کی پارٹی صدارت ، فیصلہ اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا

(تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں سرگرم عمل رہی کبھی یہ کنونشن مسلم لیگ کبھی کونسل مسلم لیگ اور کبھی جونیجو مسلم لیگ کے طور پر اپنا سیاسی کردار ادا کرتی نظر آئی مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر مسلم لیگ کو سیاسی پذیرائی نواز شریف کی حکومتوں میں ملی اور یہی وجہ ہے کہ ایسا وقت آیا کہ پھر مسلم لیگ نواز شریف کے نام پر ‘‘ن’’سے مشروط ہو گئی ۔

اس سارے عمل میں بہت سے مسلم لیگی آگے پیچھے بھی ہوتے رہے کہ ان کے اس حوالہ سے سیاسی تحفظات تھے اور نواز شریف کی قیادت میں ایسا وقت بھی آیا ن لیگ انتخابات میں جیت کی گارنٹی سمجھی جانے لگی ۔پھر حالات پلٹے اور انہیں عمر قید کی سزا ملی پھر سیاسی جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی اور ایسا وقت بھی آیا کہ انہیں بیماری کی بنا پر از خود باہر جانا پڑا ۔انہوں نے لندن میں قیام کے دوران بھی ملکی سیاست سے خود کو دور نہ کیا اور بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر اپنا سیاسی کردار ادا کیا ۔نواز شریف کی عدم موجودگی کا بڑا فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا یہاں تک کہ وہ مسند اقتدار پر بھی پہنچ گئی لیکن اس صورتحال میں پی ٹی آئی دیگر سیاسی مخالفین اور مقتدرہ کو معلوم تھا ن لیگ کی اصل طاقت نواز شریف ہی ہیں اور انہوں نے اپنی اس طاقت اور اہمیت کا اظہار اپنی بیٹی مریم نواز کو میدان میں اتار کر کیا اور کبھی از خود سیاسی طور طریقے اختیار کر کے اپنی اہمیت منوائی۔ 8فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور طے شدہ بندوبست کے تحت شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت بن گئی ۔چند ہفتے ہی گزرے ہیں ن لیگ کے اندر پھر سے نواز شریف’ کو اپنانے اور لیڈر بنانے کی تحریک جاری ہے اور اس سوچ کے پیچھے حکومت میں شامل وزرا نہیں بلکہ ایسے سنجیدہ حضرات ہیں جن کا یہ کہنا ہے 16ماہ کی حکومت نے بھی ہماری مقبولیت کو نقصان پہنچایا اور اب پھر سے جاری نیا تجربہ افراد کیلئے تو فا ئدہ مند ہوگا مگر جماعت کی اہمیت و حیثیت متاثر ہوگی لہٰذا ہمیں اپنی جماعت کی فکر کرنی چاہئے ۔

اب گیند نواز شریف کے کورٹ میں ہے اور فیصلہ انہیں کرنا ہے ۔ انہیں دیکھنا ہوگا جب وہ اپنا سیاسی کردار ادا کریں گے تو حکومت پر دباؤ آئے گا ۔جہاں تک پارٹی صدارت کا تعلق ہے تو عملاً آج بھی مسلم لیگ ن پر غلبہ نواز شریف کا ہی ہے ۔شہباز شریف بڑے فیصلے نواز شریف کی مرضی سے ہی کرتے ہیں ۔ نواز شریف کا سیاسی یا عوامی محاذ پر بڑا کردار جماعت کو تو فعال کر دے گا لیکن یہ کردار بعض فریقین کیلئے شاید قابل قبول نہ ہو۔نواز شریف کا سیاسی کردار سیاسی محاذ کو گرم بھی کرے گا اور ن لیگ کے کارکن اور ذمہ دار پھر حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے نواز شریف کی طرف دیکھیں گے اور یہ سرگرمیاں ن لیگ کا کردار تو بحال کر پائیں گی لیکن حکومت کا دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا ۔ نواز شریف کو پارٹی صدارت سمیت ن لیگ کے فعال کردار کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا اور یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے یہ بھی تاثر عام ہے نواز شریف کی قیادت میں ن لیگ کا بڑا سیاسی کردار ان کیلئے مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں