پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم

 پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم

اسلام آباد (دنیانیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اورجسٹس عائشہ ملک نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سوالات اٹھا تے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دے دیا۔

جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کیس میں لکھے گئے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ پارلیمان کو آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں،عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے ، عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، بینچ کی اکثریت غلط نتیجہ پر پہنچی جو آئین کے مطابق درست نہیں،اختلافی نوٹ کا مقصد مستقبل میں اس ہونے والی غلطی کی اصلاح کرنا ہے ، جسٹس شاہد وحید نے ججز کمیٹی کے طریقہ کار پربھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ججز کی 3 رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہوتو اس کی جگہ کون لے گا؟ اس پر قانون خاموش ہے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق کوئی دوسرا جج کسی کمیٹی ممبر کی جگہ نہیں لے سکتا،جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں کہا اگر کمیٹی کے 2 ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہوں گے ،اگر ایک رکن بیمار اور دوسرا ملک سے باہر ہو تو ایمرجنسی حالات میں بینچز کی تشکیل کیسے ہوگی؟ان کا کہنا تھا کہ قانون میں ان سوالات کے جواب نہیں، نہ ہی ججز کمیٹی ان کا کوئی حل نکال سکتی ہے ،ہر کیس پر پانچ رکنی بینچ بننے لگ گئے۔

تو زیر التواء پچاس ہزار مقدمات کے فیصلے کیسے ہونگے ؟ اس نکتے سے واضح ہوتا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون فراہمی انصاف میں کتنی بڑی رکاوٹ بنے گا، آئین کے مطابق آرٹیکل 184/3 کے درخواستیں قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت میں ہی ممکن ہے ، ججز کمیٹی انتظامی طور پر کسی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی،حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن 3 اور 4 آپس میں متضاد ہیں، سیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس 3 رکنی بینچ سن سکتا ہے ، جسٹس عائشہ ملک نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر)ایکٹ 2023 بنانے کا اختیار نہیں ہے ،یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سپریم کورٹ کے آئینی اختیار کو ختم نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ رولز میں ترمیم فل کورٹ ہی کر سکتی ہے ،سادہ قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے ، آرٹیکل 191 کے تحت آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے ، اصل سوال یہی ہے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل کی صورت میں اپیل کا حق غیر موثر ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے کسی فریق کا اپیل کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا، فل کورٹ کی تشکیل سے 184/3 میں اپیل کا حق دینے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔یادرہے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ گزشتہ سال دسمبرمیں جاری کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں