حکومت کا آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کا اعلان باعث اطمینان

حکومت کا آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کا اعلان باعث اطمینان

(تجزیہ:سلمان غنی) وزیر توانائی اویس لغاری کی جانب سے عوام کیلئے سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان مذاکراتی عمل اور معاہدوں پر نظرثانی کے اعلان کو باعث اطمینان ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

 کیونکہ آج اگر حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے تو 24کروڑ عوام کیلئے بڑا مسئلہ بجلی کے بل ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا آئی پی پیز اور حکومت کے درمیان بجلی معاہدوں پر نظرثانی ہو پائے گی اس کے نتیجہ میں بجلی کے بلوں میں کمی واقع ہو گی اور آئی پی پیز کو اپنی پیداوار کی فراہمی پر ہی ادائیگی تک محدود کیا جا سکے گا اور کیا وجہ ہے کہ آئی پی پیز کے جو معاہدے آج ملک و قوم کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں ان کو کھولنے کے عمل میں رکاوٹ بنی نظر آ رہی تھی، بلاشبہ آج بجلی کے بحران اور طوفان کی اصل وجہ بجلی معاہدے ہی ہیں اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کا حال یہ ہے کہ جن کارخانوں کے ذریعہ بجلی پیدا ہوگی اسے تو ادائیگی سمجھ آتی ہے لیکن جو پلانٹ ہی بند تھے ان کو اربوں کی ادائیگی کا کیاجواز ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق دس سال میں صرف 24پاور پلانٹس کوبجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود 12سو ارب سے زائد کی ادائیگی کی گئی اور آئی پی پیز کے حوالہ سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق ان میں زیادہ تر پاکستان اور کچھ غیر ملکی کمپنیاں شامل ہیں۔

کیسپٹی پیمنٹ ہی ہے جس نے پاکستان پر دیوالیہ پن کی تلوار لٹکا رکھی ہے ،اب جب عوامی دباؤ کے نتیجہ میں حکومت کو چاہنے نہ چاہنے کے باوجود آئی پی پیز سے بات چیت کرنی پڑی ہے اور اگر واقعتاً حکومت اس حوالہ سے سنجیدگی سے مذاکرات کرے اور ان کے ذمہ داران کو ان کی جانب سے قوم پر کئے جانے والے ظلم پر جوابدہ بنائے تو بجلی کے بلوں میں کم از کم نصف کمی ضرور ہوگی اور اگر واقعتاً وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اس حوالہ سے سنجیدگی ظاہر کرے تو ملکی معیشت اور خود ان کی سیاست بچ جائے گی عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے اور انڈسٹری بھی چلنے کے قابل ہوگی لیکن اس کیلئے حکومت کو آنکھیں کھول کر بھی رکھنا ہونگی اور دکھانا بھی ہوں گی کیونکہ یہی آئی پی پیز ہیں جنہوں نے ملکی معیشت کو بھی پٹڑی سے اتارا ہے اور عام آدمی کی زندگیاں بھی اجیرن کی ہیں۔ان معاہدوں کے کھلنے کی صورت میں ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہوں گے کہ ملک میں طوفان آ جائے گا اور حقائق یہی ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 173/3کے تحت جہاں کسی بھی معاہدہ کو صدر مملکت یا صوبائی گورنر کے دستخطوں سے مشروط کرنے کو کہا گیا ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا پرائیویٹ بجلی گھروں سے کئے گئے معاہدوں میں یہ شق شامل ہے اور کیا وجہ ہے کہ 1990سے اب تک تمام حکومتیں ان بدنام زمانہ معاہدوں کو عوام سے دوررکھنے پر مصر رہی ہیں اور لگتا ہے کہ اس حوالہ سے کچھ دال میں کالا نہیں دال ہی کالی ہے اور اب اس حوالہ سے گیند خود وفاقی حکومت کی کورٹ میں ہے ۔

کہا جا رہا ہے کہ آئی پی پیز کے حوالہ سے کیس عدالت عظمیٰ میں موجود ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ حکومت ان پاور کمپنیز کو ڈرا دھمکا کر معاہدوں پر نظرثانی پر تو مجبور کر لے مگر ماہرین مصر ہیں کہ یہ معاہدے حکومت نہیں صرف عدالت عظمیٰ ہی کھلوا کر قوم کو بتا سکتی ہے کہ ان معاہدوں سے جڑی کمپنیاں کن کی ہیں اور وہ کون ہیں جو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آ پہنچا اور آج بھی بجلی کے شعبوں میں ہمارا گردشی قرضہ 2800ارب کی حدود کو چھو رہا ہے اور آئی ایم ایف بھی دباؤ ڈالتا نظر آ رہا ہے کہ قرض لینا ہے تو پہلے یہ 2800ارب کی ادائیگیاں کرو لہٰذا یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں، کہا جا رہا ہے کہ حکومت ان کمپنیوں پر دباؤ ڈال کر ان کو معاہدوں پر نظرثانی پر تومجبور کر سکتی ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کن کی ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں