مراعات یافتہ طبقے کی ایک اور جیت

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ اور اگر یہی ہوتا رہے گا تو مستقبل مخدوش ہے۔
مراعات یافتہ طبقہ ایک بار پھر جیت گیا۔ وہی مراعات یافتہ طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُترَفین‘‘ کہا گیا ہے! بے بس طبقہ ایک بار پھر ہار گیا۔ وہی بے بس طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُستَضعَفین‘‘ کہا گیا ہے!! اور یہ جو مُستَضعَفین ہیں ان سے پوچھا جائے گا تم کس حال میں تھے‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے‘ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ کتنے برسوں سے‘ کتنی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے۔ طاقتور طبقہ کمزوروں کو کچل رہا ہے۔ نہ صرف اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کے سفاک پہیّوں کے نیچے‘ بلکہ اپنی دولت‘ قانون شکنی‘ دھونس‘ جبر و استبداد‘ غرور‘ تکبر‘ نخوت اور خودسری کے پہیوں کے نیچے بھی!! مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے میں انصاف حاصل کر لیا گیا۔ صنعتکار خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون جو‘ مبینہ طور پر نشے میں تھی‘ بچا لی گئی۔ عمران عارف اور اس کی جواں مرگ بیٹی آمنہ عمران کی روحیں یہ انصاف دیکھ رہی ہوں گی! انصاف کا یہ منظر فرشتوں نے بھی دیکھا ہو گا۔ انہوں نے انتظار کیا ہو گا کہ ابھی بستیوں کو الٹنے کا حکم ملے گا مگر حکم ڈھیل دینے کا ملا! رسی دراز کی جا رہی ہے۔ قدرت دیکھ رہی ہے کہ یہ ملک جسے اپنے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے بنایا گیا تھا کس طرح ظلم کے راستے پر بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔ ایسے مقدموں میں جہاں ایک فریق حد سے زیادہ طاقتور اور دوسرا فریق حد سے زیادہ کمزور ہوتا ہے‘ ریاست کو مدعی بننا چاہیے تا کہ طاقتور فریق کمزور فریق کو مجبور اور مرعوب نہ کر سکے۔ مگر یہ بھی یہاں کیسے ممکن ہو گا۔ جب ریاست کا اپنا اہلکار‘ کوئٹہ کا حاجی عطا اللہ‘ عین ڈیوٹی دیتے وقت کچل دیا گیا تو ریاست ہی مدعی تھی۔ مگر سردار صاحب کے مقابلے میں ریاست کمزور اور بے بس ہی ثابت ہوئی۔ یا پھر‘ کیا ریاست نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا؟
صورت حال یہ آ بنی ہے کہ جس کا بس چل رہا ہے‘ ہجرت کر رہا ہے۔ طاقتور طبقے کے ارکان کی ہجرت میں اور عام پاکستانی کی ہجرت میں بہت فرق ہے۔ طاقتور طبقے کے افراد لندن یا سپین یا یو اے ای جاتے ہیں تو قانون کو جُل دینے کے لیے۔ اور پھر جیسے ہی موقع پاتے ہیں واپس آکر ایک بار پھر حکومت سنبھال لیتے ہیں۔ اس کے برعکس عام پاکستانی ہجرت کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کو بھی بلا لے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ غالباً ابن انشا نے کہا تھا
ہو جائیں گے پردیس میں جا کر کہیں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے
ہم میں سے اکثر پاکستانیوں کا‘ جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں‘ یہ خیال ہے کہ ہمارے لوگ صرف ڈالر یا پاؤنڈ کمانے کے لیے ملک چھوڑتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ تارکینِ وطن کی اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان میں لا قانونیت‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور سرکاری محکموں میں رائج سرخ فیتے سے تنگ آکر ملک چھوڑ گئے۔ بہت سے اس لیے چلے گئے کہ پولیس نے ان کی تذلیل کی تھی۔ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر اور آئی ٹی کے ماہرین اس لیے جا رہے ہیں کہ ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔ بہت سے اس لیے چلے گئے اور جا رہے ہیں کہ مذہبی‘ مسلکی‘ نسلی اور لسانی حوالے سے ایذا رسانی کا شکار ہیں! اگر ایک جملے میں مسئلے کو بیان کرنا ہو تو یوں کہیے کہ ضابطوں‘ قاعدوں اور قانون کو پامال کیا جاتا ہے جس سے بددل ہو کر لوگ ہجرت کر جاتے ہیں۔
بظاہر نظر نہیں آ رہا کہ حالات تبدیل ہو جائیں گے! اگر حالات نے تبدیل ہونا ہوتا تو ریمنڈ ڈیوس کو باہر بھجوانے میں جن لوگوں نے اہم کردار ادا کیا تھا‘ ان کا یوم حساب آ چکا ہوتا۔ بی بی سی کے مطابق ''امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے 2017ء میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی 'دا کنٹریکٹر‘ میں پاکستان میں اپنی گرفتاری‘ مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش‘ مقدمے کا احوال اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انہیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس (یعنی وہ افراد جن کے وہ وکیل تھے) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ 'دا کنٹریکٹر‘ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011ء کو عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صَرف ہوا کہ پاکستانی عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ ڈیوس کی گلوخلاصی ہو پائے۔ ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران ایک صاحب مسلسل کیمرون منٹر (امریکی سفیر) کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ 14 مارچ کو اہلکار حرکت میں آئے اور انہوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا‘ اُن کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ... کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے‘ اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔ جونہی یہ کارروائی مکمل ہوئی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا (Cessna) طیارہ رن وے پر اُس کا انتظار کر رہا تھا‘‘۔
حالات تبدیل ہونا ہوتے تو ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق سیکھتے اور اپنے آپ کو بدل چکے ہوتے۔ ہم نے وہاں طاقت کا استعمال کیا اور نتیجہ دیکھ لیا۔ آج بھی کسی شہر میں‘ یا صوبے میں‘ یا علاقے میں شورش برپا ہے تو اس کا سدباب طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اور صرف بات چیت سے ہو سکتا ہے۔ تالیفِ قلوب سے ہو سکتا ہے۔ حکمت‘ تدبر اور تحمل سے ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی طاقتیں‘ ہمارے پڑوسیوں سمیت‘ ہماری سلامتی کے درپے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم دوستوں کی تعداد بڑھائیں اور دشمنوں کی تعداد کم کریں۔ طاقت کے بے محابا استعمال سے ردعمل پیدا ہوتا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ردعمل کا کوئی تعلق منطق سے یا اعتدال سے یا عقل سے نہیں ہوتا۔ ردعمل انتہا پسندی پر مشتمل ہوتا ہے۔ عقلمند حکمران وہ ہوتے ہیں جو ردعمل پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔ وہ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں‘ نمک نہیں چھڑکتے۔ کسی عقل مند حکمران کا یہ قول مشہور ہے کہ رعایا دھاگا کھینچتی ہے تو میں ڈھیلا چھوڑ دیتا ہوں۔ اور اُس وقت کھینچتا ہوں جب رعایا ڈھیلا چھوڑتی ہے۔ اگر حکمران اور عوام دونوں بیک وقت کھینچیں گے تو دھاگا ٹوٹ جائے گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو‘ جانِ جہاں! اختیار ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں