اٹھار ہویں ترمیم خیبرپختونخوا میں گورنرراج کیلئے ’’رکاوٹ ‘‘
(تجزیہ: سلمان غنی) وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مارچ اور اس میں پختونخوا حکومت کے کردار کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد گورنر راج کے آپشن پر غور وغوض کیا ۔
کابینہ کی اکثریت اس سے متفق تھی کہ وفاق پر چڑھائی میں سرکاری ملازمین اور مشینری کا استعمال سراسر غیر قانونی عمل تھا جسے ہضم نہیں کیا جاسکتا ۔ گورنر راج کاحتمی فیصلہ نہیں ہوا،اس امر پر پیپلز پارٹی، اے این پی اور قومی وطن پارٹی سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے بات کی جائے گی۔گورنر راج آئینی آپشن تو ضرور ہے مگر18 ہویں آئینی ترمیم کے تحت کسی صوبہ میں کسی بھی ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال پر گورنر راج کا نفاذ بہت سوچ بچار کے بعد ہونا چا ہئے تاکہ اس کے نتائج صوبہ میں مثبت نتائج کے حامل ہوں نہ کہ ایسی صورتحال مزید بگاڑ کا باعث بنے ۔ کیا پختونخوا میں حالات گورنر راج تک پہنچ چکے ، کیا اسلام آباد اس حوالہ سے حتمی فیصلہ کی پوزیشن میں ہے ؟ ۔ اس کے اثرات قومی سیاست اور ملکی حالات پر کیا ہوں گے ،جہاں تک گورنر راج اس کے نفاذ اور اسکے اثرات کا تعلق ہے تو ملکی تاریخ میں متعدد بار صوبوں میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وفاق نے گورنر راج کا نفاذ کیا اور گورنر راج کے نفاذ میں سارے اختیارات گورنر کو مل جاتے ہیں ۔
صوبائی اسمبلی کے خاتمہ کے بعد گورنر ہی براہ راست سارے اختیارات کا حامل ہوتا ہے آئین میں اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس میں بنیادی انسانی حقوق معطل ہوجاتے ہیں اور تحلیل ہونے والی اسمبلی کے سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس چلے جاتے ہیں مگر18 ہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے ۔وفاقی حکومت کیلئے آسان نہیں کہ کسی صوبہ میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کر نے کیلئے گورنر راج نافذ کرے ، آئین کی شق 232کے مطابق ملکی سلامتی، جنگ یا اندرونی وبیرونی خدشات کے تحت جب صوبائی حکومت اس کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں تاہم اس کیلئے شرط ہے کہ صوبائی اسمبلی سادہ اکثریت سے اس کیلئے قرار دار منظور کرے یا پھر دس دن کے اندر گورنر راج کیلئے قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کی جائے ، پختونخوا میں گورنرراج کیلئے پختونخوا اسمبلی سے قرار داد کی منظوری نا ممکن ہے اور اگر ایسا ہوگا تو اس حوالہ سے فوری طور پر یہ عدالت عظمیٰ میں چیلنج ہوجائے گا اور اس حوالہ سے حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا ۔ اگر صوبہ میں ہنگامی صورتحال ہو تو صدر مملکت یہ خودنافذ کرسکتے ہیں تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے صدر کے اس حکم کی توثیق لازم ہوگی ۔ جہاں تک خود پختونخوا حکومت کے طرز عمل کا سوال ہے تو انہوں نے خود کو اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی بجائے اپنا زیادہ وقت اپنی قیادت اور جماعت کی عدالت میں سرخرو ہونے کیلئے استعمال کیا ۔
بلا شبہ آج پختونخوا میں ایک طرف انتظامی حوالہ سے شدید بحران ہے اور دہشت گردی کا رجحان ہے تو دوسری جانب خود پختونخوا کی حکومت کے خود پر احتجاج کا بخار سوار کررکھا ہے اور وہ یہ سب کچھ اپنی پارٹی کے قائد کے کہنے پر کررہے ہیں ۔ ماہرین کی رائے میں حکومت کی جانب سے گورنر راج کے اقدام میں بڑی رکاوٹ آئین، قانون اور خصوصاً اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ طے شدہ طریقہ کار ہے ۔ اگر حالات ،واقعات اور پختونخوا حکومت اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو پختونخوا میں گورنر راج کا نفاذ ہوچکا ہوتا ،قانونی ماہرین حکومت کو یہ مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں اب بھی مسائل کے سیاسی حل کی کوشش اور کاوش کی جائے کیونکہ پختونخوا جیسے حساس صوبہ میں آج جیسی صورتحال میں گورنر راج جلتی پر تیل کا کام کرے گا اور حالات میں بہتری کی بجائے اور ابتری ہوگی ۔ ہنگامی بنیادوں پر گورنر راج کا نفاذ ممکن نہیں لگ پا رہا اس پر آئینی، قانونی اور سیاسی ماہرین سے مشاورتی عمل جاری ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اس پر حتمی فیصلہ کا اعلان اب وزیر اعلیٰ علی امین کی جانب سے کی گئی حکمت عملی اور ان کے طرز عمل پر ہوگا۔