"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد سے لاشیں کدھر گئیں؟

اسلام آباد برسوں سے اپنا سکون کھو چکا ہے۔ جو لوگ کبھی یہ کہتے تھے کہ اسلام آباد کو عام آدمی کے دکھوں کا علم نہیں ہے اور یہاں کے لوگ اپنی الگ دنیا میں رہتے ہیں‘ وہ بھی اب اسلام آباد کے لوگوں پر ترس کھاتے ہیں۔ اب یہ ایک ایسا شہر بن چکا ہے جہاں خوف ہے‘ دہشت ہے اور ویسی ہی بے یقینی ہے جیسی دوسرے شہروں میں ہے۔ موٹر وے بننے کی وجہ سے اب خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں‘ سینٹرل پنجاب‘ میانوالی‘ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان تک کے لوگ بڑے آرام سے یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ جہاں ان دور دراز علاقوں سے آنے والے ہزاروں مزدور یہاں مزدوری کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں‘ وہیں اب یہاں ہر قسم کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں۔ ان مظاہروں میں مقامی لوگ کم اور باہر سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے لوگ بھی اب اس زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تک یہ شہر کسی بڑے خون خرابے سے بچا رہا ہے‘ لیکن بشریٰ بیگم اور علی امین گنڈا پور اسلام آباد میں اپنے ساتھ جو مظاہرین لائے تھے‘ اُن پر پولیس ایکشن کے بعد خبروں اور افواہوں کا ایک طوفان اُٹھا ہوا ہے اور سبھی یہ بحث کررہے ہیں کہ سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں اسلام آباد میں کتنے لوگ مارے گئے۔ ایک انسان کی بھی جان چلی جائے تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ اُس بندے کے گھر والوں سے پوچھیں جنہیں عمر بھر اس صدمے سے گزرنا پڑتا ہے۔
میں بہت افسردہ ہوں اور حیران بھی کہ یہ کس نے پلان کیا تھا کہ 24 نومبر کا احتجاج فائنل کال ہوگی۔ اُس وقت تک اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے جب تک عمران خان رہا نہیں ہوں گے۔ بشریٰ صاحبہ نے کہا کہ وہ خان صاحب کے بغیر واپس نہیں جائیں گی۔ گنڈاپور صاحب گھر والوں کو کہہ کر آئے تھے کہ اُن کا جنازہ پڑھ لیں‘ وہ کفن باندھ کر اسلام آباد جارہے ہیں۔ اور پھر پتا چلا کہ وہ دونوں ڈی چوک چھوڑ کر جانے والوں میں سب سے آگے تھے۔ ورکرز ان کو روکتے رہے‘ لیکن وہ دونوں چپکے سے نکل گئے اور کسی کو پتا نہ چلا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ بشریٰ صاحبہ کا تو 24گھنٹوں تک علم نہ تھا کہ وہ مانسہرہ میں ہیں یا پشاور میں۔
سب سے زیادہ افسوس ورکرز کیلئے ہو رہا ہے جنہیں ڈی چوک پر دھرنے کیلئے لایا گیا تھا۔ کسی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا‘ سب کھانا تلاش کر رہے تھے۔ اکثر نوجوان شاید پہلی دفعہ اسلام آباد آئے تھے اور انہیں علم نہ تھا کہ اگر بھاگنا ہے تو جانا کہاں ہے۔ رات کو کہاں اور کیسے سونا ہے اور کھائیں گے کہاں سے۔ حالانکہ اُنہیں یہ تسلی دے کر لایا گیا تھا کہ تین وقت کے کھانے پینے کا بندوبست ہو گا لیکن اسلام آباد میں جو صورتحال تھی اسے دیکھ کر اُن نوجوانوں پر ترس آیا جو ''انقلاب‘‘ کی راہ پر نکلے ہوئے تھے۔ جب آپریشن شروع ہوا تو آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ جب رینجرز کے چار جوان گاڑی تلے کچلے گئے تو سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب مظاہرین کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بس رات کا انتظار تھا۔ پھر رات کو ایک بڑا آپریشن کیا گیا جس سے پورا اسلام آباد متاثر ہوا‘ لیکن اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اس آپریشن میں کتنے لوگوں کی جان گئی۔
اس سوال پر خود پی ٹی آئی کے اندر اختلاف ہے۔ ٹی وی چینلز پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 278 لوگ مارے گئے ہیں۔ شیخ وقاص نے کہا کہ ایک سو لوگ مارے گئے ہیں۔ کسی نے کہا کہ تین سو مارے گئے اور کوئی بولا: سینکڑوں مارے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کھولیں تو وہاں کوئی بندہ بھی ہزار‘ پندرہ سو سے کم کی بات نہیں کر رہا۔ برسوں پہلے خیال تھا کہ سوشل میڈیا آنے کی وجہ سے عام انسان انفارمیشن کے ذریعے خود کو اتنا طاقتور کر لے گا کہ اسے بیوقوف بنانا آسان نہیں رہے گا۔ میں بھی روایتی طور پر انفارمیشن کو ایک طاقت ہی سمجھتا آیا ہوں۔ میں خود صحافی ہوں لہٰذا خبر اور انفارمیشن کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہوں۔ عمر بھر کوشش کی کہ دانستہ طور پر ایسی انفارمیشن یا خبر نہ شیئر کی جائے جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بڑی بڑی خبریں ہاتھ لگیں لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈراپ کرنا پڑا۔ بعض لوگوں کو یقین تھا کہ وہ سچی خبریں ہیں لیکن پھر بھی انہیں بریک نہ کیا کہ اگر کل کو اسے چیلنج کر دیا گیا تو کیا یہ جواب دوں گا کہ فلاں صاحب نے بتائی تھی۔ وہ فلاں صاحب کہیں گے مجھے تو فلاں نے بتائی تھی اور وہ فلاں صاحب کہیں گے کہ مجھے فلاں نے بتائی تھی۔ مگر سوشل میڈیا اب جہاں ایک طاقت بن کر اُبھرا ہے اور اس نے عام انسان کی آواز کو بلند کیا ہے‘ وہیں اس نے فیک نیوز اور پروپیگنڈا کو بھی اگلے لیول تک پہنچا دیا ہے۔ اس میڈیم کا زیادہ استعمال سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں اور ہر ایک کے پاس اپنے اپنے سچ اور اپنے اپنے جھوٹ ہیں۔
یقینی طور پر اسلام آباد میں جو تشدد ہوا ہے‘ اس کی مذمت ہونی چاہیے کہ ایک انسان بھی مرے تو دکھ ہوتا ہے لیکن میں کچھ حیران ہوں کہ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر میں دو‘ تین سو بندہ مارا گیا اور کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔ چلیں دو‘ تین درجن افراد ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ بندے مار کر لاشیں چھپا دی گئی ہوں گی‘ لیکن دو‘ تین سو لاشیں چند گھنٹوں میں کہاں غائب ہو گئیں؟
مجھے لاہور سے ایک دوست نے میسج کرکے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ 219 مظاہرین مارے گئے ہیں جبکہ کھوسہ صاحب نے 278 کا نمبر دیا ہے۔ میں نے اُسے جواب دیا کہ آپ ہی بتائیں کہ 219 بندوں کی لاشیں جناح ایونیو اسلام آباد پر پڑی ہوتیں تو ایک حشر برپا نہ ہوتا۔ ایک قیامت کا سا منظر نہ ہوتا۔ پھر اب ہر فرد کے پاس موبائل فون ہے‘ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو‘ تین سو لاشیں سڑک پر گری پڑی ہوں اور وہاں سے گزرنے والے لوگ وڈیو نہ بنائیں۔ کتنی ہی طاقتور حکومت کیوں نہ ہو‘ وہ ایک گھنٹے میں دو‘ تین سو لاشیں اٹھا کر غائب نہیں کر سکتی۔ کیا اتنے انسانوں کو بے رحمی سے قتل کرنا کوئی معمولی بات ہے۔ جب بشریٰ صاحبہ اور علی امین گنڈا پور ڈی چوک سے بھاگے‘ اُس کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد محسن نقوی اور عطا تارڑ ڈی چوک میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ وہاں رپورٹرز اور کیمرا مین بھی موجود تھے۔ ڈی چوک کھل چکا تھا۔ شہر کی ٹریفک بحال ہو چکی تھی۔ اگر جناح ایونیو یا ڈی چوک پر لاشیں گری پڑی ہوتیں تو اُنہیں کلیئر کرانے میں کم از کم پوری رات لگنی تھی۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو ڈی چوک اور جناح ایونیو کو بند رکھا جاتا‘ فوراً نہ کھول دیا جاتا۔ مطلب ایک گھنٹے میں ہزاروں کا مجمع بھی منتشر کر دیا گیا‘ دو تین سو بندے بھی مار دیے گئے اور سب کی لاشیں بھی غائب کر دی گئیں۔ سڑک پر ڈھائی‘ تین سو لوگوں کے لہو کو پانی سے دھو بھی دیا گیا جیسے بینظیر بھٹو کا خون موقع واردات سے دھویا گیا تھا اور نارمل ہو کر میڈیا سے دو وزیر بات بھی کررہے تھے۔ یعنی اینکرز‘ یوٹیوبرز اور میڈیا پرسنز‘ جن سب کے پاس میڈیا کیمروں کے علاوہ اپنے موبائل بھی موجود تھے‘ کسی کو بھی پتا نہ چلا اور دو‘ تین سو لاشیں غائب ہوگئیں؟ آپ کو علم ہے کہ دو‘ ڈھائی سو لاشیں اٹھانے اور خون صاف کرنے کیلئے کتنے افراد یا کتنی لاجسٹک سپورٹ اور وقت درکار ہوتا ہے۔ بلیو ایریا پر کہیں نہ کہیں تو ان دو‘ تین سو لوگوں کا لہو پڑا ہوگا‘ کہیں گرا ہوگا۔ کسی نے موبائل فون سے کچھ بنایا ہوگا لیکن کسی کے پاس کچھ بھی نہیں‘ سب سوشل میڈیا پر انحصار کر رہے ہیں۔ دو دن بعد بھی چند مقتولین کے ورثا کے علاوہ کسی کا والی وارث نہیں آیا سامنے۔ وہ دو‘ تین سو خاندان کہاں ہیں جن کے پیارے مارے گئے ہیں؟ وہ چوبیس گھنٹے بعد تو سامنے آتے اور اپنا غم لوگوں سے شیئر کرتے۔ کوئی کتنا بھی چالاک اور بے رحم کیوں نہ ہو‘ وہ اسلام آباد جیسے چھوٹے سے شہر میں ایک گھنٹے میں دو‘ تین سو بندے مار کر سڑکیں لہو سے صاف کر کے ساری لاشیں غائب نہیں کر سکتا۔ اگر ہماری حکومتیں اتنی قابل ہوتیں تو یقین کریں آج ہم سپر پاور ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں