کمپنیاں ، ادارے ٹیکس چوری کر تے ہیں :چیئرمین ایف بی آر
اسلام آباد (نمائندہ دنیا)چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ کمپنیاں ، ادارے ٹیکس چوری کرتے ہیں ،سیلز ٹیکس میں 3 ہزار ارب ،انکم ٹیکس میں 1200ارب کا گیپ ہے۔
جبکہ وزیرخزانہ اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکس چوری روکنے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا رہے ہیں،آئندہ 6 ماہ کے دوران ٹیکس پالیسی اور آپریشنز کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، ٹیکس پالیسی کیلئے ماہرین و نجی شعبے کی خدمات لی جائیں گی ۔ وزیرخزانہ، وزیرمملکت اور چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ میں ترمیمی ٹیکس لا 2024 پر بریفنگ دی، وزیرخزانہ اورنگزیب نے کہا ٹیکس نیٹ سے تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر ٹیکس ٹو جی ڈی پی نہیں بڑھ سکتا، اگر ترامیم اب نہیں لائی گئیں تو انفورسمنٹ کیلئے اقدامات آئندہ بجٹ میں متعارف کرائے جائیں گے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بہت زیادہ ہے اگر ان کا ٹیکس کم کرنا ہے تو تمام سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا ،ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا کر ہیومن مداخلت کو کم کر کے ہراسمنٹ کو ختم کیا جائے گا، کمیٹی رکن سینیٹر شبلی فراز نے کہا ٹیکس گزار سمجھتا ہے ٹیکس کا پیسہ ارکارن پارلیمنٹ، ججز کی تنخواہیں بڑھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، یہاں تو سینیٹرز کی تنخواہیں ہی اتنی کم ہیں کہ گزارہ بھی مشکل ہے ، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بتایا کہ آئندہ 3 برسوں میں ٹیکس تناسب جی ڈی پی کا 14 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک بھر 62 ہزار رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے صرف 42 ہزار کمپنیاں سیلز ٹیکس جمع کراتی ہیں، ترمیمی ٹیکس لا 2024 قائمہ کمیٹی خزانہ میں زیربحث آیا چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کاروباروں کی رجسٹریشن نہ کرانے والوں کی پراپرٹی سیل، اکائونٹ منجمد کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا ہے ، قابل ٹیکس آمدن رکھنے والے افراد کو فائلرز بنے بغیر جائیدار، گاڑی خریداری، سرمایہ کاری، بینک اکائونٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی، ایکٹیو ٹیکس گزار نہ ہونے پرکاروبار کو سیل کیا جائے گا،منقولہ جائیداد قبضے میں لی جائے گی اور وصول کنندہ کا تقرر کیا جائے گا، کمپنیوں اور انفرادی سطح پر انکم ڈکلیئریشن اور اخراجات میں فرق بہت زیادہ ہے ، ترامیم کے مطابق ٹیکس نیٹ سے باہر قابل ٹیکس آمدن افراد کیلئے پراپرٹی، بینک اکاؤنٹس اور بزنس سیل کیا جا سکے گا، ترامیم میں شامل ہے کہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس آڈٹ کیلئے 1600 سو آڈیٹر ہائر کیے جائینگے ، کمیٹی نے آڈیٹر تعینات کرنے کیلئے 2 ہزار کی حد مقرر کرنے کی سفارش کی، آڈیٹر کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے ہائر کیا جائے گا اور فی آڈیٹر کو 2 لاکھ روپے تنخواہ دی جائے گی جبکہ آڈیٹرز کیلئے 1 سے 5 سال تک کا تجربہ درکار ہو گا ،ایف بی آر کے پاس اس وقت صرف 300 آڈیٹرز ہیں جنکی کارکردگی ناقص ہے اور نئی تجاویز پرترامیم سے 95 فیصد لوگ متاثر نہیں ہونگے ، حکام کا کہنا تھا کہ ٹیکس لا ترمیمی بل سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح پانچ برسوں میں 18 فیصد تک لیجانے کا ہدف ہے۔
جی ڈی پی کا 18 فیصد ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے صوبوں کو 3 فیصد ٹیکس جمع کر کے وفاق کو دینا ہو گا، اس وقت صوبے صرف 0.8 فیصد اور پٹرولیم لیوی سے ایف بی آر کو 1 فیصد جی ڈی پی کی شرح کا ٹیکس ملتا ہے ، ترمیمی بل میں نان فائلرز کیخلاف سخت اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، نان فائلرز کو نا اہل شخص کا درجہ دینے کی تجویز ہے فائلرز سے حقیقی آمدن، اخراجات کے مطابق ٹیکس وصولی کا پلان ہے ، نان فائلرز کیلئے گاڑی و پراپرٹی خریدنے پر پابندی ہوگی، ترمیمی بل کیمطابق نان فائلرز800 سی سی سے بڑی گاڑی نہیں خرید سکیں گے ، مجوزہ بل میں شامل ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر افراد بینک اکائونٹ نہیں کھول سکیں گے ، کمرشل بینک اکائونٹ ہولڈرز تمام تفصیلات ایف بی آر سے شیئر کریں گے ، ایف بی آر ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا بینکوں، آڈیٹرز کو فراہم کرنے کا مجاز ہوگا، نان فائلرز بینک سے مخصوص حد سے زیادہ رقم بھی نہیں نکلوا سکیں گے ، نان فائلرز موٹر سائیکل، رکشہ، 800 سی سی سے تک گاڑی خرید سکیں گے ، علاوہ فائلرزکے والدین، اہل خانہ، بیٹا، بیوی یا معذور فیملی ممبر فائلر تصورہو گا جائیدار، گاڑی خریدنے ، سرمایہ کاری، بینک اکائونٹ کھولنے کی اجازت ہو گی ٹیکس قوانین ترمیمی بل قومی اسمبلی اورسینیٹ میں پہلے ہی پیش ہو چکا ہے جس کا شق وار جائزہ آج سے کمیٹی اجلاس میں لیا جا رہا ہے لیکن ابھی تجویز منظور نہیں ہوئی، اجلاس میں صرف پی ٹی آئی کے رکن شبلی فراز نے شرکت کی اور سینیٹر محسن عزیز نے ورچوئل شرکت کی۔