سیاسی مفاہمت بیانا ت واعلانات ،رکاوٹ محض بانی پی ٹی آئی

سیاسی مفاہمت بیانا ت واعلانات ،رکاوٹ محض بانی پی ٹی آئی

مائنس ون فارمولہ پرغیراعلانیہ کام ہونے لگا،شاہ محمود قریشی متبادل آپشن !

(تجزیہ:سلمان غنی)

ایک ہی وقت میں حکومت، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت کے بارے میں بیانات اوراعلانات پر چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات کی کھوج لگائی جا رہی ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ سلسلہ کیسے شروع ہوا،سب سے اہم بات کہ سیاسی بحران کے اہم فریق بانی پی ٹی آئی اس کے لئے تیار ہوں گے اور اب سیاسی مفاہمت کے فروغ کے لئے نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی قائم کرنے والے پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کے پیچھے کیا ہے اور وہ اڈیالہ جیل کے قیدی کی بجائے کوٹ لکھپت کے مکینوں کی پیرول پرر ہائی کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں ۔کیا کوٹ لکھپت میں بند پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی آشیر باد نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی کو حاصل ہے اور ان کی جانب سے کاوشیں نتیجہ خیز ہوں گی۔

بلاشبہ پی ٹی ا ٓئی کی لیڈر شپ اور خصوصاً جماعت بند گلی میں نظر آ رہی ہے اور اب احتجاجی اور مزاحمتی بیانیہ سرد پڑ رہا ہے اور جماعت کے اندر اور باہر اس امر پر غور جاری ہے کہ کوئی راستہ نکالا جائے جس سے قیدیوں کی رہائی بھی ہو اور پارٹی کا کوئی سیاسی کردار بھی بن سکے ، اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا جا رہا اس لئے کہ بانی پی ٹی آئی اس کے لئے لچک دینے کو تیار نظر نہیں ا ٓ رہے ،نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی سرگرم ہوتی نظر آ رہی ہے اور واقفان حال یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آخر کب تک بانی پی ٹی آئی کی ضد کی بنا پر سب جیلوں میں بند رہیں گے اور اس حوالہ سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ممکنہ آپشن پر کام ہوتا نظر آ رہا ہے مطلب کہ غیر اعلانیہ طور پر پھر سے مائنس ون کے ایجنڈا پر کام ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن کیا یہ سلسلہ چل پائے گا اور نتیجہ خیز ہوگا فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔

دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے دو روزہ قومی مشاورتی عمل میں بھی حکومت سے مشروط مذاکرات کا عندیہ دیا گیا جس کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کا سگنل دیتے ہوئے واضح کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی ناگزیر مگر بلیک میلنگ برداشت نہیں ہو گی ۔بانی کا تو شروع سے موقف ہے کہ جس نے مذاکرات کرنے ہیں ان سے کریں اور ان کا اشارہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہوتا ہے جو کسی مذاکرات کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی اور وہ آئی ایس پی آر واضح طو رپر کہہ چکے ہیں کہ جس نے مذاکرات کرنے ہیں حکومت سے کریں مطلب کہ اسٹیبلشمنٹ لچک دینے کو تیار نہیں اور یہ سارا سلسلہ ایسی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کر کے آگے بڑھا جائے ۔

ویسے تو ماضی میں بھی یہ فارمولہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آیا اور اب بھی اس کے امکانات نظر نہیں آ رہے اور خصوصاً شاہ محمود قریشی سے جو امیدیں قائم کی جا رہی ہیں گو کہ وہ مفاہمت کے تو خواہاں ہیں لیکن وہ اس مرحلہ پر ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس کے نتیجہ میں ان کی قربانی رائیگاں جائے ، یہی وجہ ہے کہ وہ جیل سے باہر آنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ماہرین کا خیال ہیں مذاکرات اور ڈائیلاگ وہی نتیجہ خیز ہوگا جو اڈیالہ جیل کے قیدی سے ہوں یا ان کی آشیر باد سے ہوں جس کا امکان نظر نہیں آ رہا ۔البتہ اب یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ سیاسی محاذ پر پیش رفت میں اصل رکاوٹ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جانب سے اختیار کیا جانے والا طرز عمل ہے اور ان کی ضد کی وجہ سے ہزاروں سیاسی کارکن قید و بند کی صعوبتیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی ریلیف اور رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا لہٰذا مذکورہ صورتحال کب تک قائم رہے گی فی الحال اس حوالہ سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں