وہ کام زیادہ اچھا ہے!

ڈاکٹر صاحب نے بڑے فخر سے پوز بنایا... پھر ایک ادا سے لہرا کر بولے ''پارو! میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں‘ ہماری محبت میں اگر کوئی دیوار آئی تو میں اُس کے اوپر گر جائوں گا‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا ''ڈاکٹر صاحب دیوار کے اوپر نہیں گرنا‘ دیوار گرانی ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے جلدی سے سوری کیا اور دوبارہ سے بولے ''پارو... میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں‘ ہماری دیوار میں اگر کوئی محبت آ گئی تو...‘‘ میں پھر چلایا ''حضور ! دیوار میں محبت نہیں‘ محبت میں دیوار‘‘۔ انہوں نے پھر معذرت کی اور تیسری دفعہ بولے ''پارو... میں تم سے بہت دیوار کرتا ہوں... نہیں... محبت کرتا ہوں اور اگر ہمارے راستے میں کوئی پارو آئی... نہیں... دیوار آئی... تو میں... تو میں... اس کے اوپر گرنے کی بجائے اسے گرا دوں گا...‘‘ میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ڈاکٹر صاحب ڈائیلاگ بولنے کے بعد بڑے فخر سے میرے فیڈ بیک کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب میرے پرانے واقف ہیں‘ انتہائی اعلیٰ درجے کے سرجن ہیں‘ لیکن دماغ میں ایکٹنگ کا کیڑا گھسا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی طرح ڈرامے میں کام کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی میڈیکل کے شعبے میں بہت عزت ہے‘ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں‘ بے شمار کامیاب آپریشن کر چکے ہیں‘ لیکن ڈاکٹری کی بجائے ایکٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھا سمجھا کر تھک چکا ہوں کہ حضور ایکٹنگ کی فیلڈ میں ایک سو ایک ذلالتیں ہیں‘ آپ بھاگ جائیں گے‘ لیکن وہ نہیں مانتے... گھنٹوں ریکارڈنگز میں بیٹھے رہتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دو ڈراموں میں ان سے چھوٹے موٹے رول بھی کروائے ہیں اور حیرت میں مبتلا ہوں کہ اتنے اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر صاحب ‘ ڈرامے میں نوکر کا کردار ادا کر کے بھی بہت خوش ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب کو ایکٹنگ کا شوق ہے‘ لیکن اب احساس ہوا ہے کہ انہیں ایکٹنگ کا خبط ہے‘ حالانکہ نہ ان سے ڈائیلاگ یاد ہوتے ہیں نہ ایکسپریشنز دیے جاتے ہیں۔
ہم میں سے بہت سے لوگ جس شعبے کے ایکسپرٹ ہیں اُسی کے بر خلاف کسی اور شعبے میں اپنی اہمیت منوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو بہت اچھا انجینئر ہے وہ خود کو گلوکار منوانے پر تلا ہوا ہے‘ جس کے پاس آئی ٹی کا علم ہے وہ شیف کہلوانا چاہتا ہے۔ ابھی کل میری ایک نجی بینک کے منیجر سے ملاقات ہوئی‘ جنہیں اُن کی بینکاری کی صلاحیتوں پر کئی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں‘ لیکن موصوف ٹی وی اینکر بننا چاہتے ہیں اور بضد ہیں کہ بہت اچھا ٹاک شو کر سکتے ہیں۔ شوق اور ضد میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ شوق یہ ہے کہ آپ اکائونٹنٹ ہیں لیکن میوزک سے بھی لگائو ہے لہٰذا شام کو دوستوں کی محفل میں ہارمونیم یا گٹار کے ساتھ کچھ گنگنا لیتے ہیں... ضد یہ ہے کہ آپ سجاد علی کے مقابلے میں کنسرٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالئے‘ آپ کو ہر دوسرا بندہ اسی ضد میں مبتلا نظر آئے گا۔ ایسے لوگوں کی تعلیم اور تربیت ساری زندگی ایک خاص پیشے کے لیے ہوتی ہے۔ اُسی پیشے میں اِنہیں عزت و وقار بھی ملتا ہے لیکن عمر کے ایک خاص حصے تک پہنچنے کے بعد یہ ''ضدی‘‘ ہو جاتے ہیں‘ اِن کی ضد کو پروان چڑھانے میں دوستوں یاروں کا بہت ہاتھ ہوتا ہے‘ جو انہیں وقتاً فوقتاً باور کراتے رہتے ہیں کہ ''ڈاکٹر صاحب! آپ تو بہت اچھی ایکٹنگ کر لیتے ہیں‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگ اپنی فیلڈ چھوڑ کر دوسری فیلڈ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ لیکن ایسے لوگوں کی اصل فیلڈ دوسری فیلڈ ہی ہوتی ہے‘ میں اُن لوگوں کی بات کر رہا ہوں جنہیں اپنی اصل شناخت سے پتا نہیں کیوں چڑ ہوتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ جس کام سے انہیں عزت‘ شہرت اور پیسہ مل رہا ہے وہ بے کار ہے‘ اصل میں تو وہ اول درجے کے فیشن ڈیزائنر ہیں۔ پھر یہ فیشن ڈیزائنرز کی صفوں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زہریلے جملے بھی سنتے ہیں اور بے مزا نہیں ہوتے۔ اِن کی ضد اِنہیں ہر تلخ بات برداشت کرنے کا عادی بنا دیتی ہے۔ میرے پاس کئی ''با عزت‘‘ لوگ ایکٹنگ کا شوق لے کر آتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اِنہیں اپنے کسی ڈرامے میں کاسٹ کر لوں۔ میرے لیے انہیں سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہی آپ کے لیے بہتر ہے لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ کچھ عرصہ پہلے میرے پاس ایک بیوروکریٹ صاحب تشریف لائے۔ انہیں الہام ہوا تھا کہ وہ ایکٹنگ کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ میں نے انہیں 'دست بدستہ‘ عرض کی کہ آپ ایک انتہائی اہم منصب پر فائز ہیں‘ ہر بندہ آپ کو جھک کر سلام کرتا ہے‘ ایکٹنگ میں آپ کو یہ سب نہیں ملے گا۔ انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے ''تسی اک دفعہ موقع تے دیو‘‘۔ میں نے سر تسلیم خم کیا اور انہیں ایک چھوٹا سا رول دِلا دیا۔ آج کل وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ابھی تک ڈراموں میں چھوٹے موٹے رول کر رہے ہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن ایکٹنگ کے صدقے میڈیا کے ہر بندے کی منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
اصل میں ہر انسان کو ایک خاص وقت کے بعد اپنے کام سے بوریت ہونے لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ کچھ اور بھی کر سکتا ہے۔ تھوڑا سا حوصلہ مل جائے تو وہ خود کو پرفیکٹ سمجھنے لگتا ہے اور پھر وہی فیلڈ اس کی کمزوری بن جاتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے نہایت کوالیفائیڈ ڈینٹل سرجن ہیں لیکن پلمبنگ کے بہت شوقین ہیں۔ گھر کی ہر ٹونٹی پر طبع آزمائی کر چکے ہیں اور ہر محفل میں بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس شہر میں کوئی ایسا پلمبر نہیں جو میرے کام کا مقابلہ کر سکے۔ میں نے کہا ''اگر کبھی کسی پلمبر نے ڈینٹل سرجن ہونے کا دعویٰ کر دیا تو؟‘‘ گھور کر بولے ''اُس کے دانت فری میں نکال دوں گا‘‘۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم سب وہ کام نہیں کر رہے جو ہمیں کرنا چاہئے ‘ ساری زندگی کسی ایک فیلڈ میں لگا کر ہمارے اندر کی خواہشیں کسی دوسرے کام کے لیے مچل رہی ہوتی ہیں‘ یا شاید کسی ایک ہنر میں طاق ہو کر ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ہنر اب ہماری مٹھی میں ہے۔ یہ ساری کیفیات اپنے اصلی کام سے بیزاری کی ہیں‘ کام چونکہ ڈیوٹی ہوتا ہے اس لیے ہر کوئی ڈیوٹی سے بھاگتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک انگریزی رسالے میں مخرب اخلاق فلموں کے ایک ہیرو کا انٹرویو پڑھنے کو ملا۔ موصوف کا یہ بیان حیران کن ‘ افسوسناک‘ لرزہ خیز‘ دل شکن اور قابل مذمت وغیرہ وغیرہ تھا کہ ''دل کرتا ہے لمبی چھٹیاں کروں اور گیمز کھیلوں...‘‘ صد افسوس... ایسے ناشکروں کو تو کہنا چاہیے ''کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام... مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا...‘‘۔
اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر دوسروں کے کاموں میں ہاتھ ڈالنے والوں کی وجہ سے ہی آج ہر شعبہ اپنی حالت پہ ماتم کر رہا ہے۔ چلمیں بنانے والے فلمیں بنانے لگ گئے ہیں۔ شاعری کرنے والے شاعر کالم کے ماہر بن گئے ہیں۔ انجینئر خود کو حکمت میں سینئر ثابت کر رہے ہیں۔ رائٹر اپنی تحریروں سے خود کو فائٹر پوز کر رہے ہیں۔ تجزیہ نگار‘ تزکیہ نگار کہلوانے کی جستجو میں ہیں۔ سرجن میوزیشن بننے کا خواہش مند ہے۔ اکائونٹنٹ کو پیشنٹ کا انتظار ہے۔ بینکرز کو تھنک ٹینکرز میں شمولیت کی تمنا ہے اور فارماسسٹ کا خواب ہے کہ دنیا اسے اکانومسٹ کہے۔ ضد میں مبتلا ہم وہ لوگ ہیں کہ فزیشن ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی ہمیں فزیشن نہ مانے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لیکن ہم کبھی برداشت نہیں کرتے کہ کوئی ہمیں ڈانسر نہ تسلیم کرے... اجازت چاہتا ہوں میں نے ذرا مارشل آرٹس کی کلاس لینے جانا ہے...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں