نریندر مودی کی دھمکیاںبھارتی ناکامیوں کا نوحہ ہیں

بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر اور'' را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اعتراف جرم کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔صرف 4ماہ پہلے مارچ کے آخرمیں کلبھوشن ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے ثبوتوں سمیت پکڑا گیا تھا۔ کلبھوشن نے اس موقع پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے جوجو اقبال ِ جرم کئے ،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15اگست کی دلی کے لال قلعہ کی تقریر میں ان سب جرائم پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔نریندر مودی کا کہنا تھا''۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان، گلگت،بلتستان اور آزادکشمیر میں ہونے والے مظالم پرپاکستان سے جواب طلب کیا جائے۔ان علاقوں کے لوگوں نے اپنے حق میں آواز اٹھانے پر میرا شکریہ ادا کیا ہے اور یہ بات میرے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے ہم سے مدد طلب کی ہے۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ مودی کی یہ تقریر پاکستان توڑنے کی کوششوں کا باضابطہ اعتراف جرم ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف کھلا اعلان ِجنگ اور پاکستان کے بارے میںمستقبل کے ناپاک عزائم کا اظہار بھی ہے۔یہ تقریر اس بات کااقرار بھی ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان میں جہاں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں بھارت براہ راست ملوث ہے اور یہ کہ بھارت مستقبل میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ مزید بھڑکانے کا ارادہ رکھتا ہے۔بھارتی وزیراعظم کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جس لال قلعہ کی فصیل کے پیچھے کھڑے ہوکر انہوں نے پاکستان کو للکارنے، ڈرانے اور دھمکانے کی ناکام کوشش کی وہ لال قلعہ دنیا میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا امین بھی ہے اور مسلمانوں کی امانت بھی ہے۔ پاکستان کو للکارنے سے پہلے بہتر تھا کہ مودی لال قلعہ کی پُرہیبت فصیلوں اور پرشکوہ برجوں پر کنندہ تاریخ پڑھ لیتے۔ شاہ جہاں کے تعمیر کردہ لال قلعہ کے مقابل دلی کی پرشکوہ لال مسجد ایستادہ ہے۔تاریخ کا طالب علم خوب جانتا ہے کہ مسلمانوں کا بدترین دشمن اور مرہٹہ سلطنت کا بانی شیواجی مہاراج مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹاڈالنے اور قدیم ہندو سلطنت کی بحالی کا خواب لے کر اٹھا تھاوہ لال مسجد میں مہا دیو کا بت نصب کرکے اسے مندر بنانا اور اذان کی جگہ گھنٹیاں بجاناچاہتا تھا۔ تب اسی لال قلعہ کے معمارشاہ جہاں کے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے شیواجی کو شکست فاش سے دوچار کیاتھا۔یہی لال قلعہ ہے جس میں انگریز مسلمانوں پر ظلم کا راج قائم رکھنے کے خواب دیکھا کرتے تھے لیکن آخر کار مسلمانوں پر ظلم کا راج مسلط کرنے کے خواب دیکھنے والوں کا اپنا راج ختم ہو گیا۔لال قلعہ پر اگر انگریز کے ظلم کاراج نہیں رہا تو برہمن کے ظلم کا راج بھی نہیں رہے گا۔ان شاء اللہ۔
آج ہمارے حکمران،سیاستدان اور عوام نہیں جانتے کہ مسلمانوں کا بدترین دشمن شیوا جی مرہٹہ نریندر مودی کا آئیڈیل ہے۔شیوا مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے اور ان کا نام ونشان مٹانے میں جس قدر جنونی تھا اس سے کہیں بڑھ کر وہ مکروفریب میں اپنی مثال آپ تھا۔اس کی مکاری کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ریاست بیجاپو ر کے سلطان عادل شاہ کے نہایت ہی جری اور بہادر سپہ سالار افضل خان نے شیوا جی کو شکست پر شکست دی۔تب شیوا ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیالیکن ساتھ ہی ملاقات کی خواہش کااظہار بھی کیا۔جب وہ افضل خان کے ساتھ ملاقات کے لئے پہنچا تو ایک میل پیچھے ہی گھوڑے سے اتر گیااور جھک جھک کرپرنام کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔افضل خان شیوا جی کی عاجزی سے بہت متاثر ہوا۔تب وہ آگے بڑھا جھکے ہوئے شیواکوسیدھاکیااور نہایت محبت سے گلے لگایا۔جیسے ہی شیوا افضل خان کے لگے لگا شیوا کی بغل میں چھپا زہریلا خنجر افضل خان کی پشت میں اتر گیا تھا۔
نریندر مودی اسی شیوا جی کو اپنا آئیڈیل سمجھتے اور اس کے طریقہ واردات سے از حدمتاثر ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک جب وہ پاکستان آتے توچہرے پر بظاہر نرم مسکراہٹ سجائے پرنام کرتے اورنہایت ادب واحترام سے تحفے تحائف کے تبادلے کرتے تھے۔اس دوران یوں معلوم ہوتا جیسے مودی کے دل میں پاکستانیوں کے لئے پیارو محبت کا ٹھاٹیں مارتاسمندر موجزن ہے۔ایک طرف یہ محبتیں تھیںاور دوسری طرف پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے لئے کلبھوشن جیسے '' را‘‘ کے ایجنٹ اور دہشت گرد پاکستان بھیجے جارہے تھے۔اس کے بعد جب کلبھوشن کا سارے کا سارا نیٹ ورک پکڑا گیا، پاکستان استحکام کی راہ پر گامزن ہوگیا،سی پیک پراجیکٹ تعمیر کے مراحل طے کرنے لگا،مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارتی قبضہ ڈھلتی چھائوں بننے لگا ہے تو مودی سمیت بھارتی پالیسی سازوں کو یقین ہو گیا کہ پاکستان کے خلاف ان کی سازشیں ناکام ہو گئی ہیں۔
نریندر مودی کی 15اگست کی ہفوات دراصل پاکستان کے خلاف بھارت کی انہیں نا کا میوں کا نوحہ ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ مودی کی ساری تقریر ناکامیوں کی کھلی داستان اورخرافات کا مجموعہ تھی۔مثلاً انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ''پاکستان میںدہشت گردی کے نظریئے پروان چڑھائے جاتے ہیں۔‘‘لیکن حیرت ہے اس موقع پر وہ7جون 2015ء کادورہ بنگلہ دیش بھول گئے جو انہوں نے پاکستان کو توڑنے اوربنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردار کے اعتراف وخدمات کے حوالے سے کیا تھا۔اس موقع پر مودی نے جو گفتگوکی اس کا ایک ایک لفظ پاکستان دشمنی میں ڈوبا ہوا تھا۔مودی کا کہنا تھا''بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے،ہمارے لوگوںنے بھی بنگلہ دیشیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی،ہم مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑے۔ہمارے فوجیوں کے علاوہ عام ہندئووں کا بھی بنگلہ دیش بنانے(پاکستا ن توڑنے ) میں حصہ ہے ۔بنگلہ دیش بنانے (پاکستان توڑنے کی تحریک) میں میں نے بھی بطور رضاکار حصہ لیا۔مودی نے اس دوران پاکستان توڑنے کی پرانی یادوںاور باتوں کو دھر اتے ہوئے یہ بھی بتایا ''واجپائی نے اس کارنامے (پاکستان توڑنے) پراندرا گاندھی کو درگا میئتا کا خطاب دیا تھا۔‘‘ اسی طرح نریندر مودی نے 15اگست کی تقریر میںآرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ پر بھارتی پارلیمنٹ میں ٹسوئے بہائے جانے کا ذکر تو کیا لیکن 31مارچ1971ء کے موقع پر انداراگاندھی نے بھارتی راجیہ سبھا(سینیٹ)اور لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے دونوں ایوانوں سے پاکستان توڑنے کے لئے فیصلہ کن کردار اداکرنے کی جومتفقہ قرارداد منظور کروائی تھی اس کا ذکر کیوں بھول گئے۔؟
اصل بات یہ ہے کہ بھارت ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرانے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن اسے سمجھ لینا چاہئے کہ آج کا پاکستان 71ء سے بالکل مختلف ہے آج اسے کوئی شیخ مجیب الرحمن نہیں ملے گا۔آج وطن کا بچہ بچہ پاکستان کی حفاظت پر کٹ مرنے کے لئے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے۔مودی کے بیان کے خلاف بلوچستان،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ادھر مقبوضہ جموں کشمیر آتش فشاں بنا ہواہے۔اصل بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے ناکام ہونے،مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک مستحکم ہونے، پاکستانی پرچم لہرائے جانے،پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے ،مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مضبوط موقف اور آئندہ ماہ پاکستان کی طرف سے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے اٹھائے جانے کے فیصلے سے بوکھلا گیا ہے اس وجہ سے اب اس نے پاکستان پر لایعنی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔بھارت اس وقت مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک دبانے کے لئے بے دریغ طاقت استعمال کررہا ہے۔ لیکن بھا رت کو اب جان لینا چاہئے کہ آزادی کی تحریک طاقت سے دبنے والی ہوتی تو کب کی قصہ ماضی بن چکی ہوتی اور آج وادی شعلہ جوالہ نہ بنی ہوتی۔80لاکھ آبادی والے خطے پر8لاکھ فوج پہلے ہی تعینات ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہر دس کشمیریوں پر ایک مسلح بھارتی فوجی بندوق تانے کھڑا ہے۔اب بھارت نے وادی میں مزیددس ہزار فوج اتاردی ہے۔اتنی کم آبادی والے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی کی دنیا میں اور کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔اس کے باوجود آزادی کی تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے۔اہل کشمیر پاکستان کے ساتھ محبت کی لازوال داستانیں خون جگر سے رقم کررہے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اس وقت ریاست جموں کشمیر کا پوراخطہ تحریک پاکستان کے ایمان افروز مناظر کی یادیں تازہ کررہا ہے۔47ء میںبھی سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے اور ''بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگتے تھے۔آج بھی مقبوضہ وادی میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگ رہے ہیں۔
ظلم اس وقت بھی کیا جاتا تھا،لاٹھیاں برستیں،گولیاں چلتیں،مسلمانوں کے سینوں میں سنگینیں اترتیں،لاشیں چھلنی ہوتیں، عزتیں پامال ہوتیں،خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوتے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے غلام بنائے رکھنے اور رام راج کے تسلط کے منصوبے بنائے جاتے لیکن ہوا کیا۔برہمن کا ظلم جیسے جیسے بڑھتا چلا گیا آزادی کی تحریک میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ آخر وہ دن بھی آپہنچا جب برہمن اور انگریز کا حد سے بڑھتا ہوا ظلم ہندوستان ٹوٹنے اور قیام پاکستان کا باعث بن گیا ۔سو ،آج بھی علیٰ وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ جیسا شیواجی خاک چاٹنے پر مجبور ہوا ایسے ہی نریندر مودی کا حد سے بڑھتا ہوا انتہا پسندانہ اور متشددانہ رویہ بھارت کے مزیدحصے بخرے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کا باعث بنے گا۔ان شاء اللہ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں