اگرچہ ضیاء الحق خود بھی مہاجر تھا کراچی اور مہاجرین نے اُس کا ساتھ بغض معاویہ میں دیا۔ جب ضیاء الحق نے اپنی کابینہ کی تشکیل کی تو اس میں کراچی سے پروفیسر غفور، پروفیسر خورشید احمد، محمود ہارون اور محمود اعظم فاروق کے پاس اہم وزارتیں تھیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی کراچی کے عوام نے جمعیت علمائے پاکستان کے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گروپ اور جماعت اسلامی کو حق نیابت عطا کیا۔ یہ تمام اقدامات بھی کراچی کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کے لگائے گئے گھائو کا مداوا نہ کر سکے اور وہ نفسیاتی طور پر عدم تحفظ کا شکار رہنے لگے۔ 1984ء میں یہ لاوا اُس وقت پھٹ پڑا جب ایک بچی بشریٰ زیدی ایک پٹھان ویگن ڈرائیور کی شقاوت قلبی کا شکار ہو گئی۔ سارے شہر میں ایسی آگ بھڑکی جو آج تک نہیں بجھ سکی۔ اس آگ کی راکھ سے ایم کیو ایم کی چنگاری بھڑک اُٹھی جواب شعلہ بن کر کراچی اور حیدرآباد تک محدود نہیں بلکہ صوبہ اور وفاق کے ایوانوں کو اپنی تمازت سے جھلسا رہی ہے۔ وہ کراچی پر صرف اپنا کنٹرول چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے اُنہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اُنہوں نے نہ صرف پنجابیوں ، پٹھانوں اور سندھیوں سے جنگیں کیں بلکہ اس ٹکرائو میں قتل ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد خود مہاجرین کی ہے ۔ اس الزام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں اس خونی کھیل میں مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ یہی ایجنسیاں ایم کیو ایم کو جب حکم دیتی ہیں کہ وہ قومی انتخاب میں شامل نہ ہوں وہ نہیں ہو سکتے اور جب اشارہ ملتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے باہر ہو جائیں تو وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ 1993ء میں تو یہ مضحکہ خیز صورت حال بھی تھی کہ قومی انتخابات میں بائیکاٹ کیا اور صوبائی انتخابات میں اُنہیں بھرپور فتح دلوائی گئی۔ کیونکہ قومی سطح پر یہ سیٹیں پیپلز پارٹی کو دلوا کر نواز شریف کے برابر لانا تھا اور صوبے میں پیپلز پارٹی پر کنٹرول کے لیے اُن کا وجود سندھ اسمبلی میں ضروری تھا۔ 1996ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم پارلیمنٹ سے باہر جاچکی تھی۔ کراچی کا میئر بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والا تھا۔ نعمت اللہ خاں اگرچہISI کے سابقہ اہلکار تھے مگر انہوں نے اپنی کارکردگی سے ایشیا بھر کے میئروں میں خود کو منوا لیا۔ 2002ء کے انتخابات میں پرویز مشرف کو ایک کلیدی اتحادی کی ضرورت تھی وہ ایم کیو ایم کو پچھلی صفوں سے نکال کر آگے لے آئے۔ الطاف حسین جو بارہ سال سے لندن میں بیٹھ کر حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھاتاکہ وہ دوبارہ کراچی اور حیدرآباد کاکنٹرول سنبھالیں۔ جنرل پرویز مشرف نے وہ کچھ دیا جو اُن کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اس سب کے باوجود الطاف حسین جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نے ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا لہذا وہ اپنے پرانے خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ ان کا خواب کراچی اور حیدر آباد کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک کا ہے جس کے بارے میں اطلاعات مختلف ذرائع سے اخبارات میں آتی رہی ہیں۔ الطاف حسین کوکراچی کے وکلاء کی تحریک اپنے دشمنوں کی تحریک لگتی ہے۔ الطاف حسین سے اختلاف کرنے
والوں کو مہاجر قوم کا غدار سمجھا جاتا ہے۔ وہ مہاجر عوام کو دوبارہ اس وفاقی اتحاد کی علامت نہیںبنانا چاہتے جس نے انہیں بیچ منجدھارکے چھوڑ دیا تھا۔ وہ ہر اس مہاجرکی آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو ان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ مہاجرین کے خون کی ندیاں بہانے کے لیے بھی تیار ہیں وقتی طور پر انہیں پاکستان سے دلچسپی نہیں۔ 12 مئی کوایم کیو ایم نے کراچی پر مکمل کنٹرول کرنے کی ریہرسل کی۔یہ How to Capture Karachi منصوبے کا حصہ تھا۔ اُس دن کراچی کا ملک سے رابطہ کاٹ دیا گیا۔ ایئرپورٹ، ریلوے، ٹی وی سٹیشن، ہسپتال پر اُن کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔ کراچی کے جن علاقوں سے مزاحمت ہو سکتی تھی، وہاں کی آبادیوں کا محاصرہ کر کے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور وہ آبادیاں اپنے گھروں میں محصور ہو گئیں۔ سارے شہر کے محاصرے سے پہلے سیکرٹریٹ اور گورنر ہائوس مکمل قبضے میں لے لیے گئے۔ پولیس، رینجرز کو تھانوں اور چھائونیوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عوامی لیگ کے ڈھاکہ کے
محاصرے اور ایم کیو ایم کے کراچی کے محاصرے میں بالکل مماثلت نظر آتی تھی۔ 12 مئی کو ریہرسل کامیاب ہو گئی اب مکمل خود مختاری کو کیسے روکا جاسکے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی موجود ہے۔ ایم کیو ایم نے وقت سے پہلے خود کو Expose کرلیا ہے۔ کراچی کے وکلا کی بھاری اکثریت نے ثابت کر دیا ہے کہ مہاجرین کسی صورت میں الطاف حسین کی سوچ کے ساتھ نہیں وہ ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی چاہتے ہیں اور وہ کسی صورت میں قومی دھارے سے نہیں کٹنا چاہتے۔12مئی 2007ء کو ہائی کورٹ کے ججوں اور کراچی ہائی کورٹ بار کے عظیم ارکان نے ایک بار پھر پاکستان کے وجود کی بنیادوں کو اپنے آئینی جذبوں سے مضبوط کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں 12 مئی کے دن اہل کراچی کا یہ کردار اتنا ہی عظیم ہے جتنا اُن کے آبائو اجداد نے پاکستان بنانے کے لیے ادا کیا تھا۔ میں اہلیان کراچی کو ایک مرتبہ پھر سلیوٹ کرتا ہوں۔ موجودہ کرائسزکے اندر بھی کراچی کے لوگ ہمیشہ کی طرح پا کستان کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوںگے۔ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والی تنہا آواز کو کراچی کا ایک شہری بھی اہمیت نہیں دے گا۔
(مخدوم جاوید ہاشمی کی زیر تصنیف کتاب سے ماخوذ)