قربانی

دنیا کے تمام قدیم مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے ۔ اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں بلکہ جان کی نذر ہے جواُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرنا ہے، لیکن غور کیجیے تو یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، اُنہیں مردہ نہ کہو۔ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، لیکن تم اِس زندگی کی حقیقت نہیں سمجھتے۔‘‘ (البقرہ 154:2) قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے کہ نماز جس طرح اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اِسی طرح قربانی اُس کی راہ میں ہماری موت ہے: ’’ کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘( الانعام 162:6) سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں اور آیندہ نسلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک عظیم قربانی کو اُس کی یادگار بنا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے اسمٰعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیا‘‘۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب نسلاً بعد نسلٍ لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔اِس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہائے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہہ کر، ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔ یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اِس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سرِ اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اِسی حقیقت کی تمثیل ہے۔ سیدنا ابراہیم اور اُن کے جلیل القدر فرزند نے جب اپنے آپ کو اِس کے لیے پیش کیا تو قرآن نے اِسے اسلام ہی سے تعبیر کیا ہے۔ قربانی کی تاریخ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ بائیبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اِس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔ یہ طریقہ بعد میں بھی ظاہر ہے کہ قائم رہا ہو گا۔ چنانچہ اِس کے آثار ہم کو تمام قدیم مذاہب میں ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کی عبادت مقرر کی ہے تاکہ وہ اُن چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں، اِس لیے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کر دو (لیکن یہ وہی کریں گے جن کے دل اپنے پروردگار کے آگے جھکے ہوئے ہیں) اور (اے پیغمبر) اِن جھکنے والوں کو (اُن کے پروردگار کی طرف سے)خوش خبری دو۔‘‘(الحج34:22) سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے ، وہ اِس سے پہلے یقینا حاصل نہیں تھی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو کرہجرت کی تو اِس کے ساتھ ہی دعا فرمائی کہ پروردگار ، تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک فرزند کی ولادت کی خوش خبری دی۔ یہ فرزند اسمٰعیل تھے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہو رہی ہے کہ اِس بیٹے کو اپنے پروردگار کی خاطر قربان کر دیں۔ یہ ہدایت اگرچہ خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی باتیں تاویل و تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں؛ چنانچہ اِس خواب کی تعبیر بھی یہی تھی کہ وہ بیٹے کو معبد کی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیں۔اِس سے ہر گز یہ مقصود نہ تھا کہ وہ فی الواقع اُسے ذبح کر یں۔ لیکن خدا کے اِس صداقت شعار بندے نے کوئی تعبیر نکالنے کے بجائے من وعن اِس کی تعمیل کا فیصلہ کر لیا اور اِس راہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے اپنا خواب اُسے بتایا۔ سیدنا اسمٰعیل نے اِس خواب کو خدا کا حکم سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ ابا جان، آپ بے دریغ اِس کی تعمیل کریں۔ ان شاء اللہ آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔ بچے کے جواب سے مطمئن ہو کر ابراہیم اُس کو مروہ کی پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی: ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یہ ایک بڑی آزمایش تھی، تم اِس میں کامیا ب ہوئے، لہٰذا اب مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ ابراہیم کے اِس فرزند جلیل کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی قربانی کے عوض چھڑا لیا اور اِس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال اِسی تاریخ کو قربانی کی ایک عظیم روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج وعمرہ کے موقع پر اور عید الاضحی کے دن ہم ایک نفل عبادت کے طور پرپورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں