"MBC" (space) message & send to 7575

جمہوریت پھر اُسی دوراہے پر

سیاست کے سبھی رازوں میں کاری گری یہ ہے کہ یہ طشت از بام ہیں، افشا ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سیاست اور غیر سیاست کو فرزیں اور پیادے سے تشبیہہ دی جائے تو بھی اب یہاں ارادے اور ادارے‘ دونوں پوشیدہ نہیں ہیں۔ حالیہ کئی سیاسی مثالیں ہیں جو ان کھلے رازوں کا پتہ دیتی ہیں۔ مولانا صاحب کا دھرنا پہلی مثال ہے۔ مولانا آنے والے دنوں میں دھرنا سیاست کا کھیل کھیلیں گے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ جم کے کھیلیں گے۔ ابھی تک دھرنے کا حصہ بننے کی جہاں سے یقین دہانی ہوئی ہے وہ ہزاروں مدارس کے ہزاروں طلبہ ہیں۔ مولانا صاحب کو زعم ہے کہ وہ اسلام آباد آئیں گے اور حکومت گرا کر جائیں گے۔ ان کا یہ خیال بجا مگر ماضی قریب میں وہ ان دھرنوں کو سیاسی مجرے کہہ چکے ہیں‘ جن سے تماشے تو لگائے جا سکتے ہیں حکومتیں نہیں گرائی جا سکتیں۔ ایک راز جو اب راز نہیں رہا‘ مولانا صاحب کی ایک غیر سیاسی شخصیت سے سیاسی ملاقات ہے‘ جس کی بھنک سب سے پہلے بلاول بھٹو کے کان پڑی‘ اور جو اب زبان زد عام ہے۔ مولانا صاحب اسلام آباد آنے سے قبل پنڈی کے موسم کا خوب تجزیہ کر چکے ہیں۔ انہیں اطلاع دی گئی ہے کہ پنڈی کا موسم ان کے حق میں نہیں۔ وہ خان صاحب کو منظر سے ہٹانے کی خواہش رکھتے ہیں تو اسے دل میں ہی رکھیں۔
مولانا کے دھرنے میں اپوزیشن جماعتوں کا وزن ڈالنے کے معاملے کو نومبر تک روکا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے کچھ اہم فیصلے ابھی زبانی کلامی ہوئے ہیں‘ ان پر کاغذی کارروائی اگلے دو مہینوں میں ہونی ہے۔ یوں کہیے کہ اگلے چند برسوںکا معاملہ ان دو مہینوں میں اٹکا ہے۔ ہمارا نظامِ سیاست کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ بھروسا بہت بھی ہو تو لگامیں کھینچ کے رکھنا پڑتی ہیں۔ ماضی شاہد ہے‘ لگامیں کھینچنے کا کام‘ مذہبی جماعتوں کے بعد سیاسی جماعتوں کے پرانے کھاتے کھول کر با آسانی لیا جاتا رہا ہے۔ اب کی بار سیم پیج پر ہونے کی مثال تاریخی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ بڑی سرکار کو ملک کے چیف ایگزیکٹو کی دیانت اور لگن پہ کوئی شبہ نہیں ہے مگر نظامِ سیاست میں چونکہ سیاست کو ٹائٹ رکھنا نظامِ سیاست کی پرورش کا اہم جزو ہے‘ سو... ایسے ہی چلے گا۔ خبر یہ ہے کہ ان کھلے رازوں کا دوسرا محور تحریک انصاف کی سیاست ہے۔ یہاں تک تو بات بھلی تھی کہ بڑی سرکار کو چھوٹے سرکار پسند آ گئے ہیں‘ مگر اب بڑی سرکار چھوٹے سرکار کو ہر معاملے میں انگلی پکڑ کر چلانا چاہتی ہے۔ ابھی جس معاملے پر چھوٹے سرکار نے انگلی چھڑائی ہے‘ وہ وزیر اعلیٰ بزدار اور زلفی بخاری کی چھٹی کا ایشو ہے۔
خبر تو یہ بھی گردش میں تھی کہ علیم خان کو وزراتِ اعلیٰ کا عہدہ سونپے جانے کی خوشخبری پنڈی سے موصول ہو چکی تھی۔ اب چونکہ نظامِ سیاست 'پل دا پلگ‘ کے اصولوں پر چلایا جاتا رہا ہے‘ لہٰذا ممکن ہے مولانا صاحب کے کندھوں پر ہلکی سی تھپکی اور شاہوں کی بڑی سرکار کے پاس آنیاں جانیاں‘ اسی اصول کی چھوٹی موٹی جھلکیاں ہوں۔ نا صرف حکومت کے اہم اراکین بلکہ پیپلز پارٹی کا اندیشہ بھی یہی ہے کہ مولانا صاحب اتنے کچے کھلاڑی نہیں کہ بغیر کسی تھپکی کے حکومت گرانے کا اتنا بڑا دعویٰ کر دیں۔ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ خان صاحب نہ تو مولانا صاحب کی ملاقات سے بے خبر ہیں اور نہ ہی شاہ محمود قریشی کے بطورِ متبادل ذکر اور ان کی تگری لابنگ سے۔ بس موجودہ سیاست میں کچھ بھرم مجبوریوں نے رکھ لیے ہیں۔ خان صاحب کے پاس فرماں برداری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘ اور حاکمِ سیاست کے پاس خان صاحب کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ سیاست کے کھلے رازوں کا تیسرا مہرہ ن لیگ ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کی سیاست کا کڑا وقت ہے۔ جہاں میاں نواز شریف تمام کشتیاں جلا کر امر ہونا چاہتے ہیں‘ وہاں شہباز شریف 35 سال نظامِ سیاست کا حصہ رہنے کے بعد آنرایبل ایگزٹ چاہتے ہیں۔ مولانا صاحب کے دھرنے میں جانے یا نہ جانے کی کشمکش سیاسی بقا کے اسی اختلاف کے سبب ہے۔ مریم نواز نے پابندِ سلاسل ہونے سے قبل سرگودھا میں ایک جلسہ کیا تھا۔ جلسے کا وقت رات کے اڑھائی بجے کا تھا۔ اس سے قبل مریم نواز کو ایک کال موصول ہوئی تھی۔ وہ کال ان کے انکل شہباز شریف کی تھی۔ انہوں نے مریم کو محتاط رہنے‘ الفاظ میں تلخی کو بالکل معدوم کرنے اور اداروں کے خلاف خاموش رہنے کی نصیحت کی تھی اور بصورت دیگر گرفتار ہونے کی خبر دی تھی۔ مریم نواز نے جواب میں کہا تھا: رات کے اڑھائی بجے یہ ہزاروں کا مجمع مجھ سے کچھ توقع رکھے بیٹھا ہے۔ پھر وہی ہوا جس کی وجہ سے وہ نڈر خاتون جانی جاتی ہیں۔ بیانیے کی یہ تفریق اب صرف شہباز شریف اور نواز شریف تک محدود نہیں ہے۔ یہ تفریق اندرون جماعت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ تمام سینئر قیادت کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر ہے کہ وہ میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں یا ڈنڈے کے سامنے کھڑے ہونے کا دل جگرا رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب کے دھرنے میں جانے کے لیے ن لیگ کی فی الحال دو طرفہ حکمت عملی ہے۔ نمبر ایک: تیل دیکھیں گے‘ تیل کی دھار دیکھی جائے گی۔ مجمع اگر بڑا ہوا تو ن لیگ کی سینئر قیادت سٹیج سنبھال لے گی‘ اور دھواں دھار تقاریر سے مولانا کے دھرنے میں رنگ بھر دے گی۔ نمبر دو‘ ن لیگ نومبر کا مطالبہ پہلے کر چکی ہے۔ اکتوبر میں تیاری نا مکمل ہے اور دھرنے کا حصہ بننے سے کُلی طور پر معذرت کر لی جائے گی۔ دوسرے آپشن کے توقع زیادہ ہے‘ کیونکہ اسلام آباد میں رہنے والے ن لیگ کے طارق فضل چوہدری اور دیگر اراکین کو دھرنے کی پلاننگ اور حکمت عملی کے احکامات ابھی جاری نہیں کیے گئے۔ ن لیگ کے پاس ایک دلیل یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی صحت دھرنے کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دے رہی۔ ہماری اطلاع کے مطابق وہ جماعت کی میٹنگز کے دوران بھی ہر پینتالیس منٹ کے بعد دس منٹ ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق کھڑے ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس کھیل کا پانچواں محور ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی کو اندیشہ ہے کہ مولانا صاحب کو اشارے کہیں اور سے موصول ہو رہے ہیں، لہٰذا وہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ اس غیر سیاسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ مولانا کو دسمبر تک نیشنل گورنمنٹ بنانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ سیاست کے ان کھلے رازوں کا خلاصہ‘ جو افشا ہوتے دکھائی دے رہا ہے‘ کچھ مثبت اشارے نہیں دے رہا۔ بحیثیت صحافی حلقۂ احباب سے استفسار کے بعد معلوم پڑا ہے کہ یہ امکان قطعی رد نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں نیشنل گورنمنٹ بننے جا رہی ہے۔ خان صاحب اپنی ٹیم بنانے میں ناکام رہے ہیں... یا ڈلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں... یا حکم کی بجا آوری میں کوتاہی کر بیٹھے ہیں‘ وجہ کوئی بھی ہو‘ 'پل دا پلگ‘ کی ٹرمینالوجی ہماری سیاست سے ستر سال بعد بھی الگ نہیں ہوئی۔ ماضی شاہد ہے کہ جب بھی سڑکوں کی سیاست کی گئی‘ حالات بے قابو ہونے میں دیر نہیں لگی۔ 77 میں پی این اے کی تحریک چلانے والوں نے خود اپنی آنکھوں سے حالات کا دھارا بدلتے، تحریک کو ہائی جیک ہوتے اور حکومت کا تختہ الٹتے دیکھا۔ دو وزرائے اعظم کی قربانی‘ جلا وطنی اور جمہوریت کے دس سالہ تسلسل کے بعد آج ایک بار پھر جمہوریت وہیں کھڑی ہے‘ جہاں سے چلی تھی۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کی روح بھی مسکرا اٹھی ہو گی کہ ان کی حیات میں نہیں تو ان کے جانے کے بعد ملک کو نیشنل گورنمنٹ کے تحت چلائے جانے کی خبر تو ملی۔ یاد آیا‘ اس خواہش کا اظہار تو دو ہزار اٹھارہ سے پہلے شہباز شریف نے بھی کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں