ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان فلسطین میں صہیونی جارحیت و بربریت‘ اسرائیل پر ایرانی فضائی حملے‘ خطے کے کشیدہ حالات اور ایران و پاکستان میں افغان سرزمین سے جاری دہشت گردی کے تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب یورپ و امریکہ ایران کو Isolate کرنے پر تلے ہیں۔ پاکستان کے دورے سے ایک ہفتہ قبل ایران کے اسرائیل پر فضائی حملے سے امریکہ سیخ پا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے گرمجوشی سے برادر ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا والہانہ استقبال کیا اور امریکہ کی پابندیوں اور آئی ایم ایف کے دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا۔ خطے کے بیشتر ممالک جب ایران کے ساتھ کھل کر پوزیشن لینے میں پس و پیش کا شکار دکھائی دے رہے تھے‘ پاکستان نے ایرانی مؤقف کی تائید کی اور اس کی سفارتی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اسلام آباد تک محدود نہیں رہا‘ ایرانی صدر نے پاکستانی قیادت سے ملاقات کے علاوہ کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح اور لا ہور میں علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری بھی دی۔ ایرانی بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر ِ مشرق و مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ اس لیے عظیم پاکستانی رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لاہور اور کراچی کا دورہ ایرانی عوامی سفارتکاری کا حصہ ہے جو سرکاری رابطوں سے ہٹ کر پاکستانیوں سے محبت کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ ان دو شہروں میں بھی ایرانی صدر کا پُرتپاک خیر مقدم ہوا۔ ایران اور پاکستان جو پہلے بھی ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے‘ ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان کے بعد مزید قریب آگئے ہیں۔ برادر ملکوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہو گئیں۔ کراچی یونیورسٹی کی جانب سے ایرانی صدر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازنا ان کی علمی و تعلیمی خدمات کا اعتراف ہے۔
پاکستان نے ایرانی صدر کے اس قدر فقید المثال استقبال سے دنیا کو بتا دیا کہ دونوں ہمسایہ برادر اسلامی ممالک یک جان دو قالب ہیں۔ جبکہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستان اور ایران کا یکساں مؤقف ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے سکیورٹی‘ تجارت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ ویٹرنری ہیلتھ اور ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے آٹھ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے اور بنا کسی بیرونی دباؤ کے 10ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارتی معاہدے ہوئے جو کہ خوش آئند ہیں اور اس کے خطے پر بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ دوطرفہ تجارت تقریباً دو ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اگر بارٹر سسٹم کے ذریعے یا پھر مقامی کرنسیوں کے ذریعے یہ تجارت ہوتی ہے تو پھر ملک میں ڈالرکا دباؤ کم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں روپیہ مستحکم اور ڈالر سستا ہو جائے گا۔ ان معاہدوں کے تحت ایران پاکستان کو بجلی‘ گیس اور تیل دے گا جو نسبتاً سستے داموں ہو گا جس کے نتیجے میں ہماری مصنوعات بھی سستی ہو جائیں گی۔ پاکستان ایران کو ڈیری مصنوعات‘ غذائی اجناس اور زرعی مشینری بھی برآمدکرے گا۔ اب ہمیں ان معاہدوں کو بغیر کسی بیرونی دباؤ کے عملی جامہ پہنا کر ملک کی ترقی اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستحکم کرنے چاہئیں۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پر پاکستان نے بالآخر 80کلومیٹر کے اپنے حصے کی تعمیر شروع کر دی ہے‘ توقع ہے کہ یہ پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا 35 فیصد پورا حصہ پورا کرے گا۔ اس سے توانائی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور اربوں روپے تیل کے درآمدی بلوں کی بچت ہو گی۔ اہم بات یہ ہے کہ سکیورٹی تعاون کے معاہدوں کی توثیق اور دہشت گردی کے خلاف تعاون دونوں ریاستوں کے وسیع تر سکیورٹی خدشات کو دورکرنے کے علاوہ علاقائی سلامتی کو مستحکم کرے گا۔ مذکورہ معاہدہ اور باہمی سلامتی کو بڑھانے کا عزم دونوں ممالک اور بڑے پیمانے پر خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا جو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
بھائی چارے کے جذبے سے سرشار پاکستان ایران کے مابین دوستانہ سفارتی‘ تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات سے زائد دہائیوں پر محیط ہیں۔ پاک ایران تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1948ء میں ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا جبکہ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے بانیٔ انقلاب امام خمینی کی زیر سرپرستی بننے والی حکومت کو تسلیم کیا اور یہ تاریخی اقدام مضبوط‘ پائیدار اور اٹوٹ رشتے کی بنیاد بنا کہ دشمن بھی اس آہنی دوستی میں دراڑ نہیں ڈال سکے۔ انقلابِ ایران کے بعد گو کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ اتار چڑھاؤ بھی آئے مگر کشیدگی کا عنصر کبھی پیدا نہیں ہوا۔ 2012ء میں جب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی بنیاد رکھی گئی تو بھارت نے پاک چین تعلقات کے علاوہ پاک ایران تعلقات میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ گوادر پورٹ کے مقابلے میں بھارت کا ایران کو چابہار پورٹ میں معاونت کی ترغیب دینا اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان سے لے کر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں متحرک ہے اور اس کے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان اور ایران میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد پاکستان اور ایران میں کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں مگر ان کا سفارتی سطح پر پیشرفت کرتے ہوئے فوری ازالہ کر دیا گیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تقریباً 909کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے جو دونوں طرف سے بلوچستان کی سرزمین کو جدا کرتی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدِ ملت لیاقت علی خان نے 1949ء میں ایران کا سرکاری دورہ کیا جبکہ شہنشاہِ ایران نے 1950ء میں پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی ایران نے نہایت مثبت کردار ادا کیا اور پاکستان کے طیاروں کو قیام اور ایندھن بھرنے کیلئے اپنی سرزمین میں اُترنے کی اجازت دی۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بھائی چارے کا کردار نبھایا اور اب بھی نبھا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ کراس اوور ٹریننگ‘ دو طرفہ بحری مشقیں‘ دونوں بحری افواج کی جانب سے بحری سفارت کاری اور اعلیٰ سطحی دفاعی دوروں کا تبادلہ عام ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ کئی حوالوں سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ وہ پاکستان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہِ مملکت بھی ہیں۔ ایرانی صدر کے دورے پر بھارت بھی تلملا رہا ہے جبکہ امریکہ نے ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کی دھمکیاں دے دی ہیں۔ یہی ایک تلوار ہے جو ہر دم پاکستان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ اس سے پہلے گیس پائپ لائن معاہدہ امریکی سازشو ں کا شکا رہا۔ پا کستان ایک خود مختار ملک ہے اور اسے اپنے عوام کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کا مکمل اختیار و آزادی حاصل ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ملکی اور قومی مفادات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائیں۔ دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کہ جب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے‘ عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے مسلم ممالک کو معاشی طور پر مضبوط ہونا نا گزیر ہے؛ چنانچہ مسلم دنیا کو مصلحتوں کا لبادہ اُتار کر یکجہتی پر زور دینا چاہیے کیونکہ اسلامی بلاک کی آج اشد ضرورت ہے۔