ایک تو ہمارے دوست گنے چنے ہیں لیکن جو بھی ہیں نصیحت اورپارسائی کے درس سے پرہیز کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ بھلے لگتے ہیں نہیں تو یہاں ہردوسرا شخص نیکی اور محب الوطنی کے پرچار میں لگا ہوا ہے۔ ریاست ہچکولے کھا رہی ہے ، لیکن نصیحت کرنے سے باز نہیں آنا۔ہٹلر کے میز یا دسترخوان کی یہ ایک اچھی روایت تھی کہ دورانِ جنگ بھی جنگ کی باتیں یا دیگرپروفیشنل موضوعات پر بات نہیں ہوتی تھی۔ کھانے کی میز پر دیگر موضوعات پرگفتگو چلتی تھی۔ہماری عادت بھی بن چکی ہے کہ شام کے وقت ثقیل گفتگو سے بہتر تنہائی ہے۔خود سے بیٹھ لیے‘ گانے سن لیے‘کوئی کتاب کھول لی‘ بورکمپنی سے یہ چیزیں بہتر ہیں۔سیاست میں کیا آئے شام کو شادی تقریبات کبھی اٹینڈ کرنی پڑجاتی ہیں۔خدا کا قہر، کیا عذاب کی یہ محفلیں ہوتی ہیں۔ہم اتنے بور لوگ نہیں ہیں، شغل میلہ کرنا ہماری تہذیب کا صدیوں سے حصہ رہا ہے لیکن کون سی منحوس قسمت ہماری کہ بوریت کی روایتیں ہمارے قومی وجود کا حصہ بن چکی ہیں۔
ملک آفتاب ہمارے دوست گلاسکوسے ہیں ، کیا ذوق کے مالک ، باہر سے آتے ہیں کوئی فضول کی چیز نہیں لاتے۔ پلاسٹک کا ایک کنٹینر سامان میں ہوتا ہے جو یہی کہیں گے کہ سوغات سے بھرا ہوتا ہے ۔ ہمارے اچھے خاصے دن پھر گزر جاتے ہیں۔ انگلینڈ کے ہمارے دوسرے دوست شاہد ، اُن کی جانکاری شاید زیادہ مؤثر ہے۔ اُن کا کوئی جاننے والا پاکستان آ رہا ہو تو ہمارے لیے مناسب قسم کے تحائف ضرور بھیج دیتے ہیں۔آنے والا مسافر فون پر اطلاع دے دیتا ہے کہ سرگودھا یا اسلا م آباد یا کسی دیگر جگہ آ رہے ہیں ، وہاں سے اپنے تحفے تحائف لے جائیے۔ ہمارا ڈرائیور یہ نیکی کاکام پورا کردیتا ہے۔ ملک آفتاب اور شاہد کی وجہ سے ہماری جو پرانی الماری چکوال میں ہے اُس میں بہار آئی رہتی ہے۔دوست ہوں تو ایسے۔ کبھی کبھاراحباب جو مقدس راستوں پر چلتے ہیں واپسی پر کوئی تسبیح ، کوئی سفید ٹوپی کچھ کھجوریں لے آتے ہیں۔ اُن کا بھی شکریہ ، اُن کو بھی ہمارا سلام۔
ہمارے دوست گوندل صاحب جن کا قیام کنال بینک کے پاس ہے کبھی کبھی یاد فرماتے ہیں۔اُن کے ہاں عالمانہ گفتگو ہوتی ہے اورجن اشیا سے گفتگو میں کچھ رعنائی پیدا ہو اُن کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ انہوں نے یاد فرمایا تو ہم سے رہا نہ گیا اورکہہ بیٹھے کہ گوندل صاحب عالمانہ گفتگو کتنی کی جائے ، کچھ دلکشی بھی ہو تو کتنا اچھا ہو۔ ہماری گزارش سے اُنہوں نے انکار نہ کیا لیکن اگلے بلاوے کے اب تک منتظر ہیں۔ خیر وہ وقت بھی آ جائے گا۔
ہمارے دوست سابق فارن سیکرٹری شمشاد احمد خان نے ایک دو بار لنچ پر پنجاب کلب بلایا۔ ایک دفعہ ہم پہنچ گئے ، شلوار قمیض اور واسکٹ پہنی ہوئی تھی لیکن وہاں کے دربان صاحب نے فرمایا کہ یہاں تو صرف سوٹ یا اچکن پہن کر آپ اندر جا سکتے ہیں۔ عرض کیا کہ اس وقت تو سوٹ پہننے سے رہے لیکن دربان صاحب نے کہا کہ ایسے موقعوں کیلئے ہمارے پاس ایک اچکن ہے جو آپ پہن سکتے ہیں۔میں نے معذرت کی اورواپس لوٹ آئے۔ ویسے بھی ایسے لنچوں میں قومی صورتحال زیر بحث رہتی ہے۔ سچ پوچھئے تو ہم اس قومی صورتحال کا سُن سُن کر تنگ آ چکے ہیں۔ ہماری صورتحال نے ٹھیک ہونا نہیں تواس پر اتنی لمبی چوڑی بحثوں سے کیا حاصل ؟ ویسے بھی ہم لنچ سے پرہیز کرتے ہیں، دیہاتی عادت ہے، گیارہ بارہ بجے ایک آدھ پراٹھا کھا لیا اور پھر شام کا کھانا ہوتا ہے۔ڈریس ہمارا مناسب بھی ہوتا توبغیر کھائے بیٹھے رہتے اورثقیل گفتگو کا حصہ بنتے۔ قوم کے ساتھ کیا ہورہا ہے یا قوم کی صورتحال کیا ہے، ان سوالوں سے اب چڑ ہونے لگی ہے۔ وہ ہٹلر کے نمبر ٹوہرمین گورنگ نے کیا کہا تھا کہ کلچر کا لفظ سنتا ہوں تو پستول کی طرف ہاتھ جانے لگتا ہے۔ قومی صورتحال کے حوالے سے ہمارا بھی کچھ یوں ہی موڈ بن چکا ہے کہ کسی نے کچھ ایسا موضوع چھیڑا اور دل چاہا کہ سر پر کچھ دے ماریں۔
ہمارے دوست شیخ صاحب بلایا کرتے تھے، رنگ برنگی محفل ہوتی تھی ، ثقافت کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ ہو جاتا تھا، البتہ یہ شکایت ہماری ہمیشہ رہی کہ ان محفلوں کی موسیقی ہمیں کچھ زیادہ پسند نہ آتی تھی۔ یہ اچھل کود کا ماحول جو آج کل کی ثقافتی محفلوں میں رائج رہتا ہے ہماری طبیعت سے کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ موسیقی کچھ کلاسیکی رنگ میں ڈھلی ہو ، فن کا مظاہرہ بھی کچھ عمدہ ہو پھر تو بات ہوئی۔ اب چھلانگیں لگانا اور زمین پر لیٹ جانا جو آج کل کی ثقافتی پرفرمانسوں کا حصہ بن چکے ہیں ہمیں ایسی چیزوں سے کچھ زیادہ رغبت نہیں۔گوکافی عرصہ ہو گیا شیخ صاحب اب فل ٹائم پیسے بنانے میں مگن لگتے ہیں اور ہم ان دلکش شاموں سے محروم ہیں۔
ایک اور دوست ہیں علی احمد ، اُن کی بھی کیا دلفریب محفلیں ہوا کرتی ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے نہایت ہی عمدہ لیکن وہاں بھی کچھ نہ کچھ موسیقی کا پرابلم رہتا ہے۔ ذمہ دار ی کسی ایک شخص پر نہیں جاتی‘ یہاں کا ثقافتی ماحول ہی ایسا بن چکا ہے کہ شورشرابا زیادہ اورجس قسم کا دھیما پن ہمارے دل کے کچھ قریب ہے وہ یوں سمجھئے کہ ہمارے معاشرے سے تقریباً جاچکا ہے۔ جب قومی امور اتنے بے ڈھنگے ہو جائیں اورجب یوں لگے کہ قوم کااولین کاروبار ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور شادی ہال ہیں تو موسیقی اورفن کے مظاہروں میں خاک کہیں اچھا اسلوب آنا ہے۔ بہرحال جیسے دنیا امید پر قائم ہے ہم بھی اسی کیفیت میں رہتے ہیں کہ نصیب کھلیں اوردل کی ساری نہیں توکچھ آرزوئیں پوری ہوں۔ یہ کہتے ہوئے البتہ اپنے پہ کچھ ہنسی بھی آتی ہے کہ ساری عمر اس امید میں گزری کہ نصیب اب کھلیں گے۔ وہ تو نہ کھلے لیکن دل میں حسرتیں پھر بھی پالتے ہیں۔ ہماری ہمت کی پھر تو کچھ داد بنتی ہے۔
غصہ اس بات پر آتا ہے کہ مملکتِ خداداد کی مخصوص پارسائی کی وجہ سے فن ثقافت ایک پرائیویٹ معاملہ بن چکا ہے۔ جن دوستوں کا ذکر کیا ہے وہ خوش نصیب ہیں اس لحاظ سے کہ خداکا دیا سب کچھ ہے‘ نہیں تو ہر ایک کوئی ایسی محفلیں افورڈ کرسکتا ہے؟ مملکت کا یہ حال ہوچکا ہے کہ ایسا کوئی ذوق پالنا ہو تواچھا خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ ہماری الماری کی بہار کو ہی لے لیجئے، باہر کے دوست اور اُن کی فراخدلی نہ ہو توبیچاری الماری پر خزاں ہی رہے۔اسی لیے ہماری دردمندانہ استدعا ہے کہ یہ نارمل ملک نہیں رہا ،ہر ایک ذہنی طور پر مریض بن چکا ہے۔ جو بھی یہاں کے لیڈر ہیں، نام نہاد ہی سہی، برآمدات کی بات کریں گے ، معیشت کی بحثوں میں الجھیں گے ، سیاسی استحکام کا رونا روئیں گے۔ ان کو پہلی فکر اس ذہنی بیماری کی ہونی چاہیے۔ اس ملک کو پہلے نارمل تو بنائیں تاکہ دیگر ملکوں کے ساتھ اس کا شمار تو ہوسکے۔یہاں معاملہ آزادی یا غلامی کا نہیں، یہ تو محض باتیں ہیں۔ مسئلہ نفسیاتی پسماندگی کا ہے۔ ہمارے ذہن جکڑے ہوئے ہیں، ہم کسی اورصدی میں رہتے ہیں۔
چھوڑیں ان باتوں کو۔ سچ پوچھئے ہماری ضروریات بہت ہی محدود ہو چکی ہیں۔ دل موہ لینے والی موسیقی، وقتافوقتاً گلاسکوسے کچھ تحائف، مہینے دو مہینے بعد اچھے فن کا مظاہرہ۔ سادہ سے لوگ ہیں اوریہی ہماری سادہ اورمعصوم خواہشات۔ رونا بہت ہو گیا، مملکت کے چہرے سے خوشی ٹپکنی چاہیے۔