تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں کے باشندے اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہئے کہ انہیں وہ بتایا ہی نہیں جاتا جسے جاننا ان کا بنیادی حق ہے ۔اس نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا ہم کون ہیں۔تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں ۔چنانچہ پچھلے سڑسٹھ برس سے کوشش یہی ہے کہ پاکستانیوں کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائٹ پلان پر ہی رکھا جائے۔ اور انہیں یہی بتایا جائے کہ آسمان بس اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے دکھائی دیتا ہے ۔تو کیا واقعی آسمان اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے پانی میںنظر آ رہا ہے ؟
یہ دنیا دو سو انچاس ممالک ، نیم خود مختار خطوں اور غیر آزاد علاقوں پر مشتمل ہے ۔اس دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں ، آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں اعلانیہ جوہری طاقت ہے ۔اس دنیا میں پاکستان سمیت صرف پینتیس ممالک کے ہاں گلیشئیر کی شکل میں پانی محفوظ ہے ۔دس بڑے گلیشیئروں میں سے ایک (بیافو) پاکستان میں ہے ۔جبکہ دنیا کے پانچویں بڑے گلیشیئر (سیاچن) کا ایک حصہ بھی پاکستان کی تحویل میں ہے ۔دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جبکہ پاکستان کے پاس لگ بھگ سوا آٹھ سو کلومیٹر کی بحری پٹی ہے ۔دنیا کے سترہ ممالک میں دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کے 22ویں طویل دریا (سندھ)، 103ویں (ستلج ) اور 152ویں بڑے دریا (چناب) سمیت کوئی ایسا صوبہ یا زیرِ انتظام علاقہ نہیں جو دریا سے محروم ہو۔ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی پچیس فیصد آبادی رہتی ہے وہاں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ( منچھر ) سمیت پاکستان کے پاس انتالیس قدرتی اور آٹھ انسانی جھیلیں ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے ۔اس کرہِ ارض کے بائیس ممالک کے باسیوں نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہوگا تو تصاویر میں دیکھا ہوگا۔مگر پاکستان میں نہ صرف دنیا کی دوسری (کے ٹو) اور نویں اونچی چوٹی ( نانگا پربت ) ہے بلکہ یہ اکیلا ملک ہے جہاں دنیا کے دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین پہاڑی سلسلے (ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یورپ صحراؤں سے خالی براعظم ہے اور دنیا کا بیسواں بڑا صحرا ( تھر تا چولستان ) پاکستان میں ہے ۔ سترہ ممالک کے باشندوں نے ریل ہی نہیں دیکھی اور پاکستان کا ریلوے نظام ستائیسواں بڑا عالمی نیٹ ورک ہے ۔
اب آئیے زمین کی جانب ۔تو اس وطن کی مٹی کی کیفیت یہ ہے کہ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے ۔گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں درجے پہ ہے۔ چاول کی پیداوار کے لئے پاکستان چوٹی کے دس ممالک کی عالمی فہرست میں شامل نہیں مگر چاول کی برآمد کے اعتبار سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی چاول کی پیداوار کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے (بھارت دوسرے نمبر پر ہے)۔ پیاز کی فصل جن ممالک میں سب سے زیادہ ہوتی ہے ان میں چین ، بھارت اور امریکہ کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے ۔گرم مصالحوں کی برآمدی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے ۔چنے کی پیداوار میں پاکستان بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔دالوں کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی عالمی رینکنگ بیسویں ہے ۔جن ممالک میں سب سے زیادہ کھجور پیدا ہوتی ہے ان میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے ۔آم کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان چوتھا بڑا ملک ہے ۔
چونکہ پاکستان دریائی و زرعی ملک ہے لہذا یہاں مویشی بھی باافراط ہیں۔اس کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان بھارت ، امریکہ اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے ۔البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس بڑے ممالک میں پاکستان شامل نہیں ۔بکریوں کی تعداد کے اعتبار سے چین اور بھارت کے بعد پاکستان تیسرا اور مٹن برآمد کرنے والے ممالک میں بارہویں نمبر پر ہے ۔ اونٹوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک ہے ۔ مرغی کے گوشت کی پیداوار کے حساب سے پاکستان پچاس ایشیائی ممالک میں پینتیسویں نمبر پر ہے ۔
مگر یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے کہ پاکستان کو نصیب ان نعمتوں سے سب سے کم فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ عام پاکستانی ہے ۔ایک عالمی ادارے ووکس نے چند ماہ پہلے بائیس ممالک میں خوراک پر فی کس اخراجات کا جو عالمی جدول جاری کیا اس کے مطابق ایک عام جنوبی افریقی خاندان ہر روز اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے پر سو روپے کی آمدنی میں سے بیس روپے ، ایک بھارتی خاندان پچیس روپے، ایک نائیجیریائی خاندان ساڑھے انتالیس روپے خرچ کرتا ہے مگر پاکستان میں ایک خاندان اگر سو روپے روز کماتا ہے تو اس میں سے سینتالیس روپے سے زائد خوراک پر خرچ ہوجاتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی فی کس آمدنی ، کرنسی کے اتار چڑھاؤ ، نقل و حمل کے اخراجات اور ریاستی رٹ جیسے عناصر کو غالباً اس سروے میں مدِ نظر نہیں رکھا گیا ۔اگر آپ کا یہ اعتراض مان بھی لیا جائے تو اس کا کیا جواب دیجئے گا کہ عالمی خوراک پروگرام کے ڈائریکٹر برائے پاکستان ولف گینگ ہاربنگر کے بقول پاکستان میں گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے ۔گندم کی پیداوار اس قدر ہے کہ ملکی ضروریات کے لئے ذخیرہ کرنے کے بعد بھی برآمد ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو تین برس پہلے کے مقابلے میں آٹا دگنی قیمت پر مل رہا ہے ۔اس عرصے میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے صوبہ سندھ میں ناکافی غذائیت کم تو خیر کیا ہوتی اکیس سے بڑھ کے تئیس فیصد ہوگئی ہے ۔ایک ضلع تھر میں بھک مری رقصاں ہے ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق جو 
علاقے اس سال سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں بعض علاقوں کے ستر فیصد متاثر لوگوں کو خوراک خریدنے کے لئے قرض لینا پڑا۔ ہاربنگر کے بقول‘ ہوسکتا ہے گودام غلے سے بھرے ہوں مگر لوگوں کے پاس خریدنے کی مالی سکت ہی نہیں۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے ، چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے ۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ الزام شریف حکومت کی ترجیحات پر منڈھا جائے یا عمران خان کے دھرنے پہ دھرا جائے کہ یہ کہہ کر جان چھڑا لی جائے کہ یہ سب تو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ راتوں رات سب کا پیٹ بھر دیں۔
مگر اے میرے پیارو ! تعلیم گئی بھاڑ میں ، صحت گئی جہنم میں ، روزگار کی بکواس رکھو اپنے پاس ۔جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کررہی ہے اگر وہی پیداکاروں میں تقسیم کرنے کا نظام نہیں تو باقی کا کیا کروں ؟ اسلحہ برائے امن کی سالانہ نمائش سرآنکھوں پے۔ خوراک برائے امن کی نمائش کب ہوگی ؟
وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم 
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم 
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ 
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم 
(جون ایلیا)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کریں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں