لاکھوں زیرالتوا مقدمات: ذمہ دار کون?

لاکھوں زیرالتوا مقدمات: ذمہ دار کون?

پاکستان میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری کے بعد کئی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کا مستقبل کیا ہے

(ڈی ڈبلیو) پاکستان میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری کے بعد کئی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کا مستقبل کیا ہے اور اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے ؟۔پاکستان کے ایوان بالا کے کچھ ارکان کو حالیہ ہفتوں میں بتایا گیا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں تین لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر نچلی عدالتوں کے زیر التوا مقدمات کو ملالیا جائے تو ایسے مقدمات کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے ۔ پی پی پی کے کچھ رہنماؤں نے بھی حالیہ ہفتوں میں تنقید کرنے کے لیے ان اعداد و شمار کا سہارا لیا ہے ۔کئی ناقدین کا خیال ہے کہ عدالتوں میں سائل پریشانیوں کا شکار ہیں لیکن وکلا برادری ان مسائل کی ساری ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ ججوں اور عدالتی عملے کی کمی ان عوامل میں سے ہیں جو عدالتوں میں مقدمات کی تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایااس کے علاوہ کئی فنی نکات بھی تاخیر کا باعث بنتے ہیں مثال کے طور پر جواب جمع کرانے کے لیے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں۔ درخواست اور متفرق درخواستیں بھی اس عمل کو سست کرتی ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ پروسیجرل رولز کا ہے جب تک ان میں ترامیم نہیں ہوں گی التوا کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اختر حسین از خود کارروائی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کے خیال میں اس طرح کی کارروائیوں کے لیے ایک کمیٹی بننی چاہیے ۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کی رائے میں ملک کی عدالتوں میں ججوں اور عدالتی عملے کی کمی ہے صرف سندھ ہائی کورٹ کے بینچ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں ہیں لیکن تقریباً چالیس ججز ان بینچوں کو دیکھ رہے ہیں۔ نچلی عدالتوں میں بھی سٹاف کی کمی ہے ۔ حکومت کو یہ کمی پوری کرنی چاہیے ۔ جہاں تک التوا یا تاخیر کا تعلق ہے اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں تفتیش کا ناقص ہونا اور بے گناہ افراد کو مقدمات میں ملوث کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے عدالتوں کا فرض ہے وہ مقدمات باریک بینی سے دیکھیں۔جسٹس وجیہہ الدین نے از خود کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا بنیادی انسانی حقوق کا دفاع بھی عدالت کا ہی کام ہے ،از خود کارروائی صرف ایک بینچ کرتا ہے ، بقیہ تو اپنے مقدمات سنتے ہیں۔ التوا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کو دو شفٹوں میں کام کرنا چاہیے اور حکومت کو اس کے لیے ضروری مدد فراہم کرنا چاہیے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں