یہ آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا: فضل الرحمان، ایپکس کمیٹی میں آپریشن کا ذکر نہیں ہوا، عوام اور صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری: وزیراعلیٰ پختونخوا

یہ آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا: فضل الرحمان، ایپکس کمیٹی میں آپریشن کا ذکر نہیں ہوا، عوام اور صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری: وزیراعلیٰ پختونخوا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں پالیسی بتائی گئی مگر کسی قسم کے آپریشن کا ذکر نہیں ہوا۔عوام اور صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ آپریشن عزم استحکام پر آئی ایس پی آر کی پالیسی کے بعد بات کرونگا۔

آپریشن کی کوئی کلیریٹی نہیں، میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں امن و امان کے حوالے سے بات ہوئی اور انعامات دینے کی بات کی گئی جسے عزم استحکام پاکستان کا نام دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، ہم نے سی ٹی ڈی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا، اشرف غنی کی حکومت ہماری مخالف تھی، بانی پی ٹی آئی افغانستان گئے اور بات چیت کی، ہماری حکومت میں جنرل (ر) فیض تین سال تک افغانستان سے انگیج رہے لیکن باجوہ نے جنرل(ر) فیض کو ہٹا دیا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ باجوہ کہتے تھے جنرل(ر) فیض بہترین آرمی چیف بن سکتے ہیں، جنرل(ر)باجوہ کا امریکا یا نواز شریف کے ساتھ پلان تھا کہ جنرل (ر)فیض کو ہٹا دیا جائے اور پھر ہٹا دیا ،اس کے بعد تحریک انصاف کو ختم کرنے پر لگ گئے۔

آپریشن عزم استحکام پر انہوں نے کہا کہ جب تک آئی ایس پی آر کلیئر نہیں کرے گا کہ کس سائز میں آپریشن ہونا ہے کچھ نہیں کہہ سکتے ، اس حوالے سے عوام اور صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ، تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری ہے کیوں کہ ہم نے جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول نے پوری دنیا کا چکر لگایا مگر افغانستان نہیں گیا ان کو پاکستان اور فوج کی پروا نہیں ، پہلے بات چیت نہیں کی اور اب بات چیت نہ کرنے سے مسئلہ بڑھتا جارہا ہے ،بات چیت ہونی چاہیے ، افغانستان سے بات چیت کرنی ہے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ مذاکرات کے لیے کہا لیکن کوئی بھی مذاکرات نہیں ہوئے ، اداروں کے ساتھ یا وفاقی حکومت کے ساتھ بات نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرم اینڈ کنڈیشن مذاکرات پر شرائط یہی ہوں گی کہ مینڈیٹ واپس کیا جائے اور 9 مئی پر کمیشن بنایا جائے ۔آئینی طور پر گورنر کا صوبے میں کوئی کام نہیں ، میرے اوپر الزامات لگائے گئے اب ہتک عزت کے لیے تیار رہیں۔میری ملاقات محسن نقوی سے نہیں وزیر داخلہ سے ہوتی ہے ، پھر بات چیت ہوگی، اگروفاقی حکومت نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو ہمارا ری ایکشن بھی آپ کے سامنے ہوگا۔

کوئٹہ ، لاہور (سٹاف رپورٹر ، سٹی رپورٹر ،سیاسی نمائندہ،دنیا نیوز) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا، اس وقت ملک میں ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے ، یہاں جمہوریت اور پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں، ان کے خلاف مسلح تنظیمیں اپنا مؤقف تسلیم کروا رہی ہیں،شہباز شریف وزیر اعظم نہیں وہ صرف کرسی پر بیٹھے ہیں اور اسی میں خوش ہیں ۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں کئی آپریشنز ہوئے ہیں ذرا ان کے نتائج سامنے رکھیں، آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیوں بے بس ہوگئے ہیں؟ خیبرپختونخوا میں سورج غروب ہوتے ہی پولیس تھانوں میں بند ہوجاتی ہے ، ملک کو اور کمزور کیوں کیا جارہا ہے ؟ ایپکس کمیٹی کیا ہے ؟ ہم ان حالات کو بھگت رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہر شعبے میں اپنی بالادستی کو ختم کرنا ہوگا۔کیا پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ ہم غلامی کریں گے اور جس طرح وہ ہمیں چارہ ڈالیں گے ہم قبول کریں گے ،ہمیں اپنی ضرورت کیلئے زرداری یا شہباز شریف نہیں بننا چاہیے جو راستے میں چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا آپریشن کا فیصلہ کوئی اور کرے گا اور ذمہ داری سیاسی جماعتیں اٹھائیں گی۔ ریاست کا رویہ بے رحم ہو چکا ہے ، اپنے عوام کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ رکھا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے ملک میں وحدت کا تصور پیش کریں، راستے میں تحریکیں چھوڑ دینا مناسب بات نہیں۔ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں، سیاسی مشاورت کا سلسلہ چلنا چاہیے اور اگر پی ٹی آئی نے اتحاد بنا لیا ہے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں، ہم اس اتحاد کو منفی نظر سے نہیں دیکھ رہے لیکن اس پر مشاورت ہوجاتی تو اس کا نقشہ الگ ہوتا۔ادھر قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن الائنس تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اب اگر آپریشن ہوا تو ملک کے حالات مزید خراب ہوجائیں گے ۔ تاریخ کے جبر نے ہمیں اس ملک میں اکھٹا کردیا، پنجابی، سندھی، پٹھان بلوچ اپنے وطن میں آباد ہیں، 75 سال میں ہم ایک پاکستانی قوم بنانے میں ناکام رہے ۔ کسی کو اچھا لگے یا براب ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسی یہاں (پارلیمنٹ) میں بنے گی، اللہ کا حکم ہے جھوٹ بولنے والوں پر لعنت ہے مگر یہاں کوئی سچ نہیں بولتا، میں نے صرف یہ گناہ کیا اس بات کو تسلیم کرلیا کہ الیکشن بانی پی ٹی آئی کی پارٹی جیت چکی ہے ۔

سینیٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں اُسے قومی اسمبلی کی طرح کے اختیارات د یئے جائیں۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام غم و غصے میں ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں ہمارے وسائل کا اختیار دیں ہم آئی ایف سے جان چھڑا دینگے ۔ علاوہ ازیں ایک بیان میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوجی آپریشن کی نہیں، سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ۔ امن، معاشی اور سیاسی استحکام عوام کی رائے سے بننے والی حکومت ہی کے ذریعے آ سکتا ہے ۔ عوام بالخصوص خیبر پختونخوااور بلوچستان کے قبائلی عوام فوجی آپریشن کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام پاکستان آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے ، لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ پارلیمنٹ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ، قومی، سیاسی جمہوری قیادت سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ادھرگورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی پشاور میں اے این پی کے باچا خان مرکز پہنچ گئے ۔

گورنر نے اے این پی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی ۔بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اے این پی رہنما میاں افتخار نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ یک طرفہ ہوا، لوگوں کو مذاکرات اور آپریشن دونوں پر یقین نہیں دہشت گردوں کی جڑیں پنجاب میں ہیں، آپریشن عزم استحکام کے فیصلے پر شدید تحفظات ہیں، اے این پی نے گورنر کو تحفظات کے حوالے سے آگاہ کردیا، آپریشن کسی صورت قابل قبول نہیں، اے این پی آپریشن عزم پاکستان کے حوالے سے کل جماعتی اجلاس بلا رہی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں