اتنی بڑی آبادی اور صرف4صوبے،حکمرانی ممکن ہی نہیں،خدا نخواستہ4ٹائم بم پھٹ سکتے:میاں عامر محمود
لاہور (دنیا نیوز ، خبرنگار)چیئرمین پنجاب گروپ آف کالجز میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پاکستان میں 33 نئے صوبے بننے چاہئیں، اس کے بغیر پاکستان ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ،پاکستان میں گورننس ماڈل اب فرسودہ ہو چکا ہے ، اتنی بڑی آبادی اور صرف 4 صوبے ہیں۔
حکمرانی ممکن ہی نہیں، خدانخواستہ 4 ٹائم بم پھٹ سکتے ہیں ،عوامی مسائل کا حل صرف اورصرف مضبوط، بااختیارمقامی حکومتوں اور چھوٹے صوبوں کی تشکیل میں ہے ، انصاف کے حصول میں بہتری آئے گی اور آمدنی میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کو کبھی سیریس نہیں لیا گیا اور نہ ہی آگے بڑھنے کا موقع دیا گیا، پاکستان میں لیڈرشپ کے مواقع محدود ہیں، بڑے صوبوں کی وجہ سے سیاسی قیادت چند خاندانوں اور اشرافیہ تک محدود ہو گئی ، چھوٹے صوبوں سے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو سیاست اور قیادت میں آگے آنے کا موقع ملے گا۔یونیورسٹی آف لاہور میں پاکستان کی نجی یونیورسٹیز کی نمائندہ تنظیم ’’ایپ سپ‘‘کے زیر اہتمام آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے میاں عامر محمود نے مزید کہا کہ میرا تعارف ایجوکیشن ہے لیکن میں دو بار میئر لاہور بھی رہ چکا ہوں، لوکل گورنمنٹ ہمارے ملک کا سب سے کمزور ادارہ ہے ،شہریوں کی 90 فیصد ضروریات لوکل گورنمنٹ کے ذریعے پوری ہوتی ہیں لیکن اسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، گلی سے لیکر شہر تک صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات کی فراہمی لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے ۔
انہوں نے کہاکہ طلبہ کو بہترین تعلیم ملنی چا ہئے کیونکہ تعلیم ہی ترقی اور معاشرتی بہتری کی بنیاد ہے ، ملک، حکومت اور معاشرے کا اصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے اور اسی تناظر میں تعلیم و تربیت کو ترجیح دی جاتی ہے ، پبلک ویلفیئر کو عالمی سطح پر بھی جج کیا جاتا ہے ، اسی لئے پاکستان میں بھی تعلیم اور عوامی فلاح کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام سنگین چیلنجز کا شکار ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے عالمی اداروں کی تجاویز پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، یونیسیف جیسی ایجنسیاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تعلیمی نظام کے مسائل پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کی درجہ بندی ان ممالک سے ذرا ہی اوپر ہے جہاں خانہ جنگی جاری ہے ۔میاں عامر محمود نے کہا کہ قانون کی بالادستی کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 120 ویں نمبر پر ہے جبکہ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا ایجوکیشن سسٹم کس طرح چل رہا ہے اور ہم اسے بہتر بنانے کیلئے کیا عملی اقدامات کر رہے ہیں؟۔ چیئرمین پنجاب گروپ نے خبردار کیا کہ پاکستان میں تعلیمی بحران سنگین حد تک بڑھ چکا ہے اور 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
ان کاکہناتھاکہ آج پنجاب کی آبادی 127 ملین (12کروڑ70لاکھ)ہے اور ہر ملک نے آبادی بڑھنے کے ساتھ اپنے نظام کو منظم کیا ہے مگر پاکستان میں اس حوالے سے اب بھی ناکافی اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں، میں ایٹم بم بنانے کے فارمولے پر بات نہیں کر رہا بلکہ بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، تعلیم و تربیت کی بہتری کیلئے فوری عملی اقدامات اور بین الاقوامی تجربات سے استفادہ ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکا کی آبادی 25 لاکھ تھی اور 13 ریاستیں تھیں، اس وقت امریکا کی 50 ریاستیں بن گئی ہیں، صوبوں نے مل کر ملک بنائے ہیں، ملک صوبوں کو نہیں بدل سکتا، اسٹیٹس نے ہی مل کر ملک بنائے ہیں، جب ہمارے 4 صوبے تھے تو بھارت کے 9 صوبے تھے ، بھارت کی اس وقت ایک ارب 45 کروڑ کی آبادی اور 28 صوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کے ایسے مفادات ہیں جو بڑے صوبوں سے وابستہ ہیں، ہم شاید ان کچھ لوگوں کے مفادات کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہے ، ملتان اور بہاولپور کے لوگ الگ صوبہ چاہتے ہیں، ہزارہ کا علاقہ بڑی دیر سے الگ صوبہ بننا چاہتا ہے ، مہاجر لوگ اپنا الگ صوبہ چاہتے ہیں، ہر ملک نے بہت زیادہ صوبے بنائے ہیں، آپ ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں، پنجاب میں 10 صوبے بنیں گے ، سندھ 7 حصوں میں تقسیم ہو گا اور بلوچستان میں 8 ڈویژنز ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پنجاب اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے رہن سہن میں بہت فرق ہے ، سپروائزری گورنمنٹ کی تہہ سے پورا سیکرٹریٹ بھرا ہوا ہے ، عدالتوں میں لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں، ایک بار آپ عدالت میں پھنس گئے تو ساری زندگی وہاں گزرجاتی ہے ، آپ نے سنا ہوگا سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو بری کردیا تو پتہ چلا اس کو پھانسی بھی ہوگئی ہے ، قصور ہماری جوڈیشری کا نہیں سسٹم کا ہے ، جو عدالت چلا جاتا ہے اس کی زندگی برباد ہوجاتی ہے ۔ میاں عامر محمود نے کہا کہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صوبے بنانے سے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے ، بھارت میں آندھرا پردیش اورتلنگانہ کو برابر وسائل پر تقسیم کیا گیا، 10سال بعد آندھراپردیش اور تلنگانہ کی آمدن ڈبل سے زیادہ ہو گئی، بھارت میں ایک چائے بنانے والا وزیراعظم بنا، لیڈرشپ کو سخت مقابلے کے بعد آگے آنا چاہئے ، دنیا میں کوئی لیڈرپرفارم کرتا ہے تو آگے بڑھ سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں کوئی جتنی بھی محنت کر لے وہ ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا، ہمارے ملک میں مواقع بند کر دئیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر سسٹم ٹھیک نہیں کیا تو معدنیات بھی ہمارے لئے رحمت نہیں زحمت ہوں گی، ہمیں پہلے اپنا سسٹم ٹھیک کرنا ہے ، اگر معدنیات نے ملک کو ٹھیک کرنا ہوتا تو سب سے زیادہ معدنیات روس کے پاس ہیں، لیڈرز ہی ہیں جو قوموں کو آگے لیکر جاتے ہیں اور ملک بناتے ہیں، میرٹ پر آنے والے لیڈرز ہی قومیں بناتے ہیں، ہمیں لیڈر کسی کونے میں سے تلاش نہیں کرنا، ہمیں ایک سسٹم بنانا ہے جس سے نکل کر لیڈر سامنے آئے ۔ چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ ہم سب مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے ہیں، دنیا میں لیڈرز مڈل کلاس سے ہی پیدا ہوتے ہیں، لیڈرشپ مڈل کلاس سے ہی آتی ہے ، مڈل کلاس سے صرف سیاسی لیڈر شپ نہیں بلکہ مذہبی لیڈرشپ بھی آتی ہے ، اس قوم اور ملک نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے ، میری پہلی ترجیح میرا ملک ہی ہے ، ہمیں اپنے آپ کو اس ملک میں ہی ٹھیک کرنا ہے ، ہمیں پہلے اپنی عزت ملک میں بنانی ہے پھر دنیا میں جانا ہے ۔
میاں عامرمحمود نے کہا کہ اس وقت ہمارے 4 صوبے ہیں، پنجاب پاکستان کی آبادی کا 53 فیصد ہے ، آپ کی آبادی 53 فیصد ہے تو نظر بھی ہر جگہ پر آتے ہیں، پنجاب کو وسائل بھی 53 فیصد ہی درکار ہیں، باقی 3 صوبے مل کر 47 فیصد ہیں، پنجاب آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اس لئے اس کو گالی بھی پڑتی ہے ، دنیا میں اگر پنجاب الگ ملک ہو تو آبادی کے لحاظ سے 67 ویں نمبر پر ہو گا، ہمیشہ کہتا ہوں یہ 4 ٹائم بمز پاکستان کی بنیاد میں رکھے ہوئے ہیں، یہ 4 ٹائم بمز خدانخواستہ کبھی بھی پھٹ سکتے ہیں، ان کو ٹھیک کرنا ہوگا، بھارت کو بھی فیڈریشن صوبوں نے ہی بنایا ہے ، بھارت ہر الیکشن سے پہلے 2 صوبے بناتا ہے ، بھارت نے صوبے بنائے تو یہ دیکھیں ان کی کس طرح گروتھ ہوئی، بھارت دیکھتا ہے کون سا صوبہ پروگریس کر رہا ہے اورکون سا نہیں، سب سے کم پروگریس مہاراشٹر میں تھی، پھر انہوں نے دیکھا پروگریس کم کیوں ہوئی، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مہاراشٹر پروگریس نہیں کر سکا، پاکستان میں نئے صوبے کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت چاہئے ، بھارت میں صرف سادہ اکثریت ضروری ہے ۔
میاں عامرمحمود نے کہا کہ آپ صوبے ضرور بنائیں، نئے صوبوں میں ایسے وزیراعلیٰ ضرور آئیں گے جو لوکل گورنمنٹ چلائیں گے ، آپ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ، اسٹیبلشمنٹ کے بغیر آپ اس لئے آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ آپ کے پاس سنجیدہ لیڈرشپ نہیں ہے ، بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا، نواز شریف 2 تہائی اکثریت کے وزیراعظم تھے ، نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا کوئی عوامی سپورٹ نہیں آئی، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے کوئی عوامی سپورٹ نہیں جو ان فیصلوں کو بدل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر اپنی ایک سپیڈ سے اوپر جارہا ہے ، اصل میں کسی نے کچھ نہیں کیا، ہم کہہ رہے ہیں نوجوان لیڈر شپ آنی چاہئے ، نوجوان لیڈرشپ کیسے آئے گی ہم یہی بتانا چاہ رہے ہیں، ہم گراس روٹ سے آکر نوجوانوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کا فائدہ کس چیز میں ہے ۔ ایک ملک کو ٹرن آراؤنڈ کرنے میں 30 سال لگتے ہیں، چائنا نے خود کو 30 سال میں ٹرن آراؤنڈ کیا، بھارت کو بھی تبدیل ہونے میں وقت لگا ہے ، ہم بھی 2 دن میں کچھ نہیں کر سکتے ، ہر لیڈر برا نہیں ہے ، لوگ پورا پورا دن کام کرتے ہیں، آخر میں دماغ تھک جاتا ہے ، آپ لڑ لڑ کر کوئی کام کرنے کی کوشش کریں گے تو نہیں ہو گا، سسٹم ٹھیک نہیں ہوگا تو جتنا مرضی لڑلیں کچھ نہیں ہو گا۔ چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ ایک جج کے سامنے 150 کیسز رکھ دیں گے تو آپ کو فیصلوں سے کیا امید ہو گی، ارشد ندیم گولڈ میڈل جیتا تو سب سے پہلے اس سسٹم سے لڑا، ارشد ندیم کو گورنمنٹ نے کوئی سپورٹ نہیں دی ہو گی، ارشد ندیم کو ایک نیزا تک تو خرید کر دیا نہیں ہو گا، ارشد ندیم جیت کر آیا تو ہم سب کا ہیروبن گیا، ہمیں وہ سسٹم بنانا ہے جو نوجوانوں کو سپورٹ کرے ۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ملک سے کچھ نہیں چاہئے لیکن میرا ملک بنیادی حقوق کی حفاظت تو کرے ، جہاں بنیادی حقوق کی حفاظت نہیں ہوتی تو وہاں محبت کتابوں اور ترانوں میں ہوتی ہے ، ہم نے اور ہماری آئندہ نسلوں نے اسی ملک میں رہنا ہے ۔ میاں عامر محمود نے کہا کہ وہ بہت کم لوگ ہیں جن کے ذاتی مفادات ہیں، ہم چاہتے ہیں نئے صوبوں کے حوالے سے عوام میں آگاہی آئے ، ہم کہہ رہے ہیں نئے صوبے ایک بڑی تبدیلی ہے ، اگر آپ سمجھیں گے تو سپورٹ بھی کریں گے ، ہم مل کر آگے بڑھیں گے تو ایسا مطالبہ بنے گا جو کوئی رد نہیں کرے گا۔ ایک دور وہ تھا جب پرائیویٹ یونیورسٹیز بن ہی نہیں سکتی تھیں، ہم پہلے کسی سے کوئی نئی پرائیویٹ یونیورسٹی کی بات کرتے تھے تو وہ کہتا تھا یہ کیسے ہو گا، بعد میں اتنا مضبوط مطالبہ بنا کہ حکومت کو اس پر سوچنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ ٹھیک ہونی ہی ہونی ہیں، ہمیں مضبوطی کے ساتھ اپنے مؤقف پر کھڑے رہنا ہے ، کوئی بھی لیڈر اس پر کام کرے گا تو وہ ملک کا سب سے مقبول لیڈر ہو گا، کچھ لیڈرز کو خاندانی سیاست کی وجہ سے سپورٹ ملی، ہر پارٹی میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص مل ہی جاتا ہے جس میں قابلیت ہوتی ہے ۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ اس ملک میں اشرافیہ ہی ہے ، سیاسی، ملٹری اور سول سروسز اشرافیہ بہت خوش ہے ، کاروباری اشرافیہ بھی یہاں بہت خوش ہے ، اس ملک کی اشرافیہ کا شکار مڈل کلاس ہے ، اس ملک کی اشرافیہ 700 سے 800 خاندان ہیں، یہاں اشرافیہ خود بہت اچھی زندگی گزارتی ہے ۔ چیئرمین پنجاب گروپ نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ ہم یہ جدوجہد کسی سیاسی مہم کیلئے نہیں کر رہے ، پچھلی بار سوال ہوا کہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے کہا ہو گا، ہمارا معاشرہ ایسا بن گیا ہے کہ میں قسم بھی کھاؤں تو کہیں گے یہ ٹھیک نہیں۔ قبل ازیں چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود یونیورسٹی آف لاہور پہنچے جہاں ان کا پھولوں کی پتیوں اور گلدستوں کے ساتھ شاندار استقبال کیا گیا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب گروپ سہیل افضل بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ چیئرمین یونیورسٹی آف لاہور اویس رؤف اور چیئرمین سپیریئر گروپ چودھری عبد الرحمن نے خود چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا استقبال کیا۔ اس موقع پر جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 20 اگست کو بھی چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے سپیریئر یونیورسٹی میں تقریب سے خصوصی خطاب کیا تھا اور ملک میں نئے صوبے بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
چیئرمین بورڈ آف گورنرز دی یونیورسٹی آف لاہور اویس رؤف نے کہا کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن میں نجی شعبہ فیصلہ کن کرداراداکررہاہے ، اس سال سرکاری یونیورسٹی سے زیادہ سٹوڈنٹس نے پرائیویٹ یونیورسٹیز میں داخلے لئے ہیں جو پرائیویٹ نظام تعلیم پر اعتماد کا مظہر ہے ، آج ملک کے 50 فیصد طلبہ نجی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمام یونیورسٹیاں مل کربھی صرف 12 فیصد طلبہ کو ہی داخلہ دے سکتی ہیں،اس لئے نجی شعبے کی شمولیت کے بغیر ہائر ایجوکیشن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا، پرائیویٹ یونیورسٹیز قائم کرنے اورانہیں چارٹرکرانے میں ایم اے رؤف مرحوم، میاں عامر محمود اور چودھری عبدا لرحمن کی انتھک محنت شامل ہے ۔تقریب میں سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا، جس میں طلبہ نے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود سے مختلف موضوعات پرسوالات کئے ۔ تقریب کے اختتام پر چیئر مین یونیورسٹی آف لاہور اویس رؤف اور چیئر مین ایپ سپ چودھری عبد الرحمن نے مہمان خصوصی میاں عامر محمود کو شیلڈ پیش کی ۔