کنسٹرکشن پیکیج اورعام عوام

جب سکول میں انگریزی سیکھنا شروع کریں تو استاد محترم ٹینسز سکھانے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ کو سمجھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ اُس وقت تو صرف پڑھائی لکھائی اور انگریزی میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے اسے سمجھا جاتا ہے لیکن جیسے ہی پریکٹیکل لائف کا آغاز ہوتا ہے تو ڈائریکٹ اوراِن ڈائریکٹ کا مفہوم ایک مختلف طرز میں سامنے آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ا کثر اوقات کسی چیز کے براہِ راست سے زیادہ اس سے منسلک دوسرے عوامل کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں؛ جیسے اگر صرف کنسٹرکشن کا آغاز کیا جائے تو اس سے منسلک تمام انڈسٹریز حرکت میں آ جاتی ہیں۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبہ صنعتوں کی ماں کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ تعمیراتی شعبہ مختلف صنعتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر صرف گھر بنایا جائے تو اس سے وابستہ تمام ضروریات کو مکمل کرنے کے لئے سیمنٹ، اینٹ، پتھر اور بجری سے لے کر لوہا، سینٹری، الیکٹریشن، لکڑی اور پینٹ تک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ان سب سے متعلقہ انڈسٹریز کا کام بھی چلنا شروع ہو جاتا ہے اور اس طرح ایک تعمیراتی شعبے سے براہِ راست اور بالواسطہ ملکی معیشت اور عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تعمیراتی شعبے کی اسی اہمیت کی پیش نظراس کو اب باقاعدہ طور پر ایک الگ انڈسٹری کا درجہ دے دیا گیا ہے اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے تحت ایک کنسٹرکشن پیکیج دیا گیا ہے جس کے تحت تمام صوبے ون ونڈ آپریشن کریں گے، لوگوں کو اب مختلف کاموں کے لیے مختلف دفتروں میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ اب مختلف شعبوں سے وابستہ کام ایک ہی جگہ آن لائن سسٹم کے تحت ممکن ہوگا۔ اس پر ہی بس نہیں بلکہ اپروول یعنی منظوری کے لئے تمام لوازمات پورے کرنے اور متعلقہ ایشوز کو ختم کرنے کے لئے ایک ٹائم فریم ہوگا جس کے اندر یہ مسائل حل ہوں گے اور جو کوئی بھی اس شعبے یعنی کنسٹرکشن میں انویسٹمنٹ کرے گا، اس سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اس لئے اب سرمایہ کار کیلئے سازگار ماحول ہوگا، تاہم اس پیکیج سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس سکیم کے تحت31دسمبر سے پہلے پروجیکٹ رجسٹرڈ کرانا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے کنسٹرکشن پیکیج کے تحت نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی آف ہاؤسنگ تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد عام لوگوں کو گھر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ کنسٹرکشن پیکیج کے تحت بینکوں کی طرف 330ارب روپے تعمیراتی شعبے کے لئے الگ سے مختص کئے گئے ہیں اور نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے لئے 30ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے تحت پہلے ایک لاکھ گھروں کے لئے 3لاکھ روپے فی گھر تک سبسڈی دی جائے گی اور 5مرلہ گھر پر صرف 5فیصد مارک اپ دینا پڑے گا جبکہ 10مرلہ گھر پر صرف 7فیصد مارک اپ ادا کرنا پڑے گا اور آسان ترین اقساط کے ساتھ 20سال میں گھر اپنا ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت کے فروغ کے لئے ٹیکس میں بھی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں اور اب ماضی کے برعکس فکس ٹیکس کی سہولت ہو گی۔ اس کے علاوہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت تعمیراتی سرگرمی پر 90فیصد تک ٹیکس معاف ہوگا، جنرل سیلز ٹیکس کو 15فیصد سے کم کر کے 2فیصد کر دیا گیا ہے اور سریہ اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی سامان پر بھی وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
کون ہے جسے اپنے ذاتی گھرکی خواہش نہیں۔ اپنے گھر کا حصول نہ صرف ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے بلکہ یہ ایک بنیادی ضرورت بھی ہے۔ ازل سے انسان کسی محفوظ شیلٹر کی تلاش میں رہا ہے‘ جدید دور میں سب سے محفوظ شیلٹر انسان کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر شخص‘ خواہ وہ کاروباری شخص ہو یا ملازمت پیشہ فرد‘ کے دل میں اپنے گھر کی خواہش ہوتی ہے۔ کچھ لوگ تو یہ خواہش کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی میں ہی پوری کر لیتے ہیں لیکن اکثر ا سی خواہش کے ساتھ آخری آرام گاہ میں دفنائے جاتے ہیں کیونکہ اپنا گھر بنانا آج کے دور میں اتنا آسان کام نہیں رہا۔
پاکستان کے برعکس دوسرے بہت سے ممالک مثال کے طور پر امریکہ اور یورپ میں ذاتی گھر آسان اقساط کے ساتھ بینک مورگیج (Bank Mortgage) پر لے سکتے ہیں، اس لئے وہاں لوگ کرایہ پر گھرکے بجائے بینک سے گھر لینے کو ترجیح دیتے ہیں اور جو کرایہ دینا ہوتا ہے‘ وہ بینک کو قسط دیتے رہتے ہیں اور آخرکار ایک دن گھر ان کا اپنا ہو جاتا ہے، لیکن پاکستان میں بینک چونکہ بہت زیادہ شرح سود پر قرض دیتا ہے تو اس لئے یہاں گھر پر سارا پیسہ خود لگانے کو ہی بہتر سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اگر کسی کے پاس گھر خریدنے، تعمیر کرنے کے مکمل پیسے نہیں ہو پاتے تو وہ اپنا پلاٹ ہونے کے باوجود بھی کرایہ پر رہنے پر مجبور ہوتا ہے، اسی خیال کے پیش نظر یہ سکیم متعارف کروائی گئی ہے۔ اب اس سکیم سے عام لوگوں کو بھی اپنا گھر بنانے میں آسانی ہوگی اور تقریباً جتنا کرایہ ہوتا ہے‘ لگ بھگ اتنی ہی ماہانہ قسط بنے گی اور آخرکار گھر اپنا ہو جائے گا۔
اس حوالے سے بہت سے سوالات عوام کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں‘ مثلاً یہ کہ سرمایہ کار سے اس کا ذریعہ آمدن نہ پوچھنے کی وجہ اور اہم اور بنیادی سوال کہ اس سے صرف بڑے ٹھیکیداروں اور سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ ہوگا یا عام عوام کو بھی؟ تو اس کی وجہ جو ابھی تک سامنے آئی ہے‘ وہ یہ کہ یہ معاملہ کافی دیر سے زیر غور تھا کہ جن کے پاس چاہے جائز سیونگ بھی تھی یا تو وہ ٹیکس کی جانچ پڑتال کے ڈر سے سرمایہ کاری نہیں کر رہے تھے یا پھر سب کچھ کیش پر ہوتا تھا تو دونوں صورتوں میں ملکی معیشت کو فائدہ نہیں ہو رہا تھا‘ اس لئے پیکیج میں دی گئی اس رعایت کے بعد ان کے لئے ماحول سازگار ہوگا اور وہ سرمایہ کاری کر سکیں گے، اس سے ملک کو یہ فائدہ ہو گا کہ چھپایا گیا پیسہ گردش میں آ جائے گا اور یہ ساری رقم ملک کے معاشی نظام میں آ جائے گی۔ دوسرا یہ کہ یہ پیکیج صرف بڑے ٹھیکیداروں اورسرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس سے عام عوام کو فائدہ ہوگا۔ اس پیکیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عام عوام آسانی سے ذاتی گھر جیسی نعمت حاصل کر سکیں گے اور آسان اقساط کی وجہ سے ان پر زیادہ معاشی بوجھ بھی نہیں آئے گا۔
حالیہ دنوں میں وبائی مرض کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور تمام چھوٹی اور بڑی انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے کاروبار تباہ ہونے کے ساتھ بے روزگاری کا طوفان بھی برپا ہونے کو ہے تو ایسے وقت میں یہ پیکیج ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سے انڈسٹریز کھلیں گی‘ کاروبار میں اضافہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ایک عام مزدور سے لے کر انجینئر تک کو ملازمت ملے گی کیونکہ تقریباً 40انڈسٹریز کنسٹرکشن کے شعبے سے منسلک ہوتی ہیں تو جب کنسٹرکشن انڈسٹری کا پہیہ چلتا ہے تو تمام متعلقہ انڈسٹریز چلنے کی وجہ سے ملک کی مجموعی صورتحال میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
دوسری انڈسٹری کے ساتھ بینکنگ سسٹم کو بھی اس پیکیج کے خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے کیونکہ سارے پیکیج میں بینک کی شمولیت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے بینک کا کاروبار بھی چلے گا اور یہ شعبہ جب ترقی کرے گا تو اس سے بھی روزگار کے مواقع نکلیں گے۔ اس کے علاوہ جو پاکستانی دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ ان کے لئے اس پیکیج کے تحت یہاں ایک محفوظ اور منافع بخش ماحول بن سکتا ہے تاکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لیں۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر مذکورہ پیکیج کا تعلق عام عوام سے ہے اور اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس پیکیج سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں