جب پاکستان کی معاشی حالت خستہ تھی اور بیرونی طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیل رہی تھیں تو اس وقت چین نے پاکستان کے ساتھ اس ترقیاتی منصوبے کا معاہدہ کیا۔ اسی لئے سی پیک سازشوں کی ناکامی اور تجارتی سفارتکاری کی فتح ہے اور یہ منصوبہ محض ایک روڈ یا سڑک تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ بہت سارے ترقیاتی منصوبوں کا مجموعہ ہے اور اس منصوبے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سمیت بڑے پیمانے پر خطے کے لئے خوشحالی کا ذریعہ بننا اور دنیا کی بہترین تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ سی پیک فریم ورک میں شامل اہم شعبوں میں انفراسٹرکچر، توانائی، صنعتی تعاون، سماجی و اقتصادی ترقی، گوادر میں مختلف منصوبے، علاقی تعاون، زراعت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سیاحت شامل ہیں۔ اس سے خاص طور پر دونوں ملکوں کے محروم علاقوں میں لوگوں کو کاروبار اور روزگار ملے گا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سی پیک کی اصل روح کو سمجھا جائے اور خود کو تیارکیا جائے تاکہ اس منصوبے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکے کیونکہ یہ منصوبہ کئی چھوٹے، درمیانے اور بڑے منصوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ براہ راست حکومت اور عوام سے منسلک ہے۔ اس میں عوام کے لئے ہر طرح کے مواقع موجود ہیں لیکن اگر ایک زمیندار‘ کوئی کاروباری شخص اور نوجوان منصوبہ بندی کریں گے تب ہی وہ زراعت میں جدت سے فائدہ، کاروبار میں صحیح جگہ سرمایہ کاری اور نوکری کے لئے متعلقہ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔سی پیک کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کا جائزہ لیا جائے تو سی پیک کا پہلا مرحلہ نمایاں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہے، پہلے مرحلہ میں انفراسٹرکچر کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں کامیابی حاصل کی اور بہت سے منصوبے تکمیل کے کے مراحل میں ہیں جکبہ صنعتکاری اور زراعت کو جدید بنانا اور سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ دینے کے ساتھ اب دوسرا مرحلہ (2021-2025) شروع ہو چلا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چین نے پاکستان میں سی پیک کے تحت اب نئی سرمایہ کاری کی ہے اور سال 2020ء میں یہ سرمایہ کاری 11بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جن میں 3.9 بلین ڈالر کی رقم سے دو ہائیڈرو پروجیکٹس (کوہالہ اور آزاد پٹن) شامل ہیں اور 7.2بلین ڈالر کا ریلوے کی اپ گریڈیشن کا معاہدہ شامل ہے یہ 2015کے بعد چین کی دوسری بڑی سرمایہ کاری ہے۔
انفراسٹرکچر ہمیشہ ملکی ترقی میں بہت اہم رہا ہے۔ اسی لئے انفراسٹرکچر سی پیک فریم ورک کے بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ ہے۔ ابھی تک تین بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں جن میں ملتان سکھر موٹروے‘ جس کی لمبائی 392کلومیٹر ہے، دوسرا منصوبہ کے کے ایچ فیز ٹو، حویلیاں- تھاہکوٹ سیکشن ‘ جس کی لمبائی 120کلومیٹر ہے اور کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل فیز ون بھی مکمل ہو گیا جس کے فائبر آپٹک ٹرمینلز کی لمبائی 820کلو میٹر ہے۔اس کے علاوہ جو منصوبے تعمیراتی مراحل میں ہیں ان میں نیو گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ، دوسرا منصوبہ ایسٹ بے ایکسپریس وے ہے جس پر 64فیصد کام ہو چکا ہے، اس کے علاوہ منصوبوں میں ہکلہ- ڈی آئی خان موٹروے ہے جس کی لمبائی 285کلومیٹر ہے، اس کا بھی 72فیصد کام مکمل ہو گیا ہے، خضدار سے بسمہ روڈ جس کی لمبائی 110کلومیٹر ہے، پر 20فیصد کام ہو چکا ہے اور ژوب سے کوئٹہ روڈ‘ جس کی لمبائی 331کلومیٹر ہے‘ یہ ٹینڈر کے مراحل میں ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ اورنج لائن میٹرو ٹرین پروجیکٹ ہے جس پر 99فیصد کام ہو چکا ہے۔انفراسٹریکچر کے نئے اور آئندہ آنے والے منصوبوں میں ریلوے کا اسٹرٹیجک منصوبہ مین لائن ون پشاور سے کراچی بہت اہم ہے جس کی لمبائی 1872کلومیٹر ہے، یہ اینکر پروجیکٹ کا کام کرے گا جو پاکستان میں لاجسٹک انڈسٹری کو مزید ترقی دے گا۔ یہ منصوبہ 9سال میں مکمل ہوگا، اسکے علاوہ دیگر منصوبوں میں ڈی آئی خان سے ژوب‘ جس کی لمبائی 210کلومیٹراور 4لائن ہائی وے ہے، خوشاب سے آوارن جس کی لمبائی 146کلومیٹر ہے، سکھر سے حیدرآباد جس کی لمبائی 306کلومیٹر اور کراچی سرکلر ریلوے جس کی لمبائی 43کلو میٹر ہے‘ شامل ہیں۔
پاکستان کو طویل عرصہ تک توانائی بحران کا سامنا رہا‘ اس لئے سی پیک کے فریم ورک میں توانائی کے منصوبے ترجیحی طور پرشامل کیے گئے ہیں۔ ابھی تک سی پیک انرجی کے 17 میں سے 9 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور 8 منصوبوں پر کام جاری ہے بلکہ اب مزید 5 منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ اس کے علاوہ توانائی کی ضرورت پوری کرنے اور تیل اور گیس کے ترقیاتی منصوبے کے لیے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن اور آئل ریفائنری منصوبوں کی اپ گریڈیشن جیسے منصوبے شامل ہیں۔ کوہالہ اور آزاد پٹن ہائیڈرو پاور منصوبوں کے سہ فریقی معاہدوں پر دستخط ہونے کے بعد اب توقع ہے کہ یہ منصوبے جلد شروع ہو جائیں گے۔
ملکی ترقی میں صنعتی شعبہ کے مرکزی کردار کے پیش نظر سی پیک منصوبے میں اسے شامل کیا گیا‘ پاکستان میں 9 سپیشل اکنامک زون قائم کیے جائیں گے جن میں فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی سپیشل اکنامک زون کی گرائونڈ بریکنگ کی جا چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں رشکئی سپیشل اکنامک زون کے لیے 1ہزار ایکڑ جگہ خریدی جا چکی ہے اور سندھ میں دابھے جی جو ایک بڑا اور سپیشل اکنامک زون ہے جو 3ہزار ایکڑ پر مشتمل ہوگا‘ وہ بھی ٹینڈر کے مراحل میں ہے۔جب تک عوام کو براہ راست فائدہ نہ ملے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بارے سنجیدگی نہ دکھائی جائے‘ تب تک بڑے سے بڑا منصوبہ بھی عوام میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے، اسی لیے سی پیک میں سماجی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختلف منصوبے رکھے گئے ہیں جن میں سے غربت کے خاتمے، صحت، تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، زراعت اور پانی کی فراہمی کے 27 ترجیحی منصوبوں میں سے 17 فاسٹ ٹریک منصوبے سال 2020-21 میں عمل میں آئیں گے۔چین اور پاکستان کے مابین طے شدہ تعاون کے علاوہ مزید راہیں بھی کھولی جا رہی ہیں۔ زراعت اور صنعتی تعاون کی فوقیت دیتے ہوئے 2020-21 کو توانائی کے جاری منصوبوں کے علاوہ صنعتی تعاون، زراعت کو جدید بنانا، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سماجی و معاشی ترقی کا سال قرار دیا گیا ہے۔ اسی سال زراعت سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) تشکیل دیا جا چکا ہے جس کی سربراہی وزارت قومی فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ، پاکستان اور وزارت زراعت و دیہی امور چین کر رہی ہیں۔ ورکنگ گروپ بڑی فصلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے، زراعت کی پیداوار میں اضافے، کٹائی کے بعد کے ضیاع، کیڑوں اور بیماریوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کے بیج کی نشو و نما اور پیداوار کے منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہوگا۔ اس کے علاوہ زراعت کو جدید بنانے کیلئے فارم مشینری کے استعمال کی منصوبہ بندی بھی کی جا ر ہی ہے۔سی پیک کے تحت سیاحت کو فروغ دینا سی پیک فریم ورک کے تحت تعاون کا ایک اور شعبہ ہے۔ کورونا وائرس سے پوری دنیا بری طرح متاثر ہوئی ہے‘ ایسے ہی کچھ اندیشے سی پیک کے بارے بھی تھے کہ شاید اس پر کام رک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ پاکستان اور چین‘ دونوں ہی سی پیک کے تمام منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہر شعبۂ زندگی کسی نہ کسی طرح سی پیک سے منسلک ہے اور یہ منصوبہ خاص طور پر ملک میں بجلی کی نئی پیداوار کے بنیادی وسیلے کے طور پر سامنے آیا ہے‘ اسی لیے سی پیک کو گیم چینجر کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا پاکستان کا مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ہوگا۔ سی پیک منصوبے سے نہ کسی کو کوئی نقصان ہو گا اور نہ یہ خطے کے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی سازش ہے‘ یہ ایک خالص ترقیاتی منصوبہ ہے‘ یہ صرف چین اور پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ Open for All ہے، اسی لیے حکومت پاکستان نے بارہا خطے کے دوسرے ممالک کو بھی اس عظیم الشان منصوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔