"FBC" (space) message & send to 7575

مبالغہ آمیز رپورٹنگ‘ہائبرڈ وار کا ایک اور ہتھیار

کسی بھی شخص یا ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہر طرح کی ٹیکنالوجی اورمیڈیائی کرتب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ جعلی خبریں‘ جھوٹ پھیلانا یا کسی ذرائع سے ملنے والی خبروں کو بلاتصدیق دہرانا بھی عدم استحکام پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے ‘ جس کے نتیجے میں کسی بھی فرد یا ملک کو بے یقینی کی سولی پر لٹکایا جاسکتا ہے۔ عام طور پر اس طرح کی خبریں بہت دیر تک نہیں چلتیں کیونکہ سچ بہرحال اپنا راستہ بنا لیتا ہے لیکن ان سے نقصان ہوتا ہے‘ بالخصوص جب آبادی کا بڑا حصہ ناخواندہ ہو تو یہ زہریلے اثرات زیادہ دیر پا ہوتے ہیں۔ مفادات کی جنگ میں ایک اور خطرناک حربہ ہے جسے ہم ''مصالحے دار خبریں‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بنیادی طور پر خبر درست ہے لیکن اسے مرچ مصالحہ لگا کر بیان کیا گیا ہے‘ بات کو بڑھا چڑھا کر اس میں منفیت بھی شامل کردی گئی ہے‘ اس کے نتائج بھی فیک نیوز جیسے ہی برآمد ہوتے ہیں یعنی اس کے نتیجے میں بھی عدم استحکام‘ شبہات اور بے اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
خبریں دینے کے اس انداز کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑے ہدف سی پیک اور چین سے متعلق رپورٹنگ کا جائزہ لینا کافی ہو گا۔ گوادر میں ایک ہوٹل پر دہشت گردانہ حملے کی رپورٹنگ ہونی چاہیے تھی اور اکثر اخبارات نے آئی ایس پی آر کے فراہم کردہ حقائق آگے بیان کیے‘ تاہم ایک روزنامے نے اس خبر کو نہ صرف صفحہ اول پر خصوصی کوریج دی بلکہ ایک چوکھٹا بنا کر بلوچستان میں گزشتہ دنوں ہونے والے حملوں کی تفصیلات بھی درج کر دیں۔ اس طرح یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بلوچستان جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے‘ وہاں عوام اور جاری منصوبے محفوظ نہیں اور ان سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔ یہ سیدھا سادہ دشمن کا پروپیگنڈا ہے۔ اس کی کشمیر سے متعلق رپورٹنگ اتنی محدود کیوں ہے‘ انہوں نے کبھی یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ بھارت کشمیر سمیت دیگر 17ریاستوں تک میڈیا کو رسائی کیوں نہیں دیتا؟
درحقیقت نام نہاد بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) ایک دم توڑتی تنظیم ہے‘ جسے غیر ملکی سرپرستوں نے پاکستان کو بدنام کرنے اور دباؤ میں رکھنے ‘ سی پیک کو بے یقینی کی نذر کرنے اور ایرانی سرحد کے نزدیک بے چینی بڑھانے کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اخبار نے اپنے اداریے میں یہی انداز اپنایا جبکہ مارے جانے والے حملہ آوروں میں شامل ''مسنگ پرسنز‘‘ اسے یاد نہیں رہے۔ ایسے ہی ''مسنگ پرسنز‘‘ کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے میں بھی ملوث تھے۔ بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام بار بار دہرایا جاتا رہے اور اسے دنیا کے سامنے سرمایہ داری کے لیے غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کیا جائے۔
ایسی ہی ایک اور مبالغہ آمیز خبر پاکستان سے چین دلہنوں کی سمگلنگ سے متعلق پھیلائی گئی۔ میڈیا نے خبریں چلانا شروع کردیں کہ چین کے مرد شہری پاکستانی اور بالخصوص ہماری مسیحی برادری کی نوجوان لڑکیوں سے جعلی شادی کرکے یا ان کے والدین سے خرید کر انہیں اپنے ملک لے جاتے ہیں جہاں ان سے یا تو جسم فروشی کا دھندا کروایا جاتا ہے یا زبردستی ان کے اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔ یقیناً اس خبر میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور تھی۔ انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے اعلی افسر جمیل احمد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ شادی کے نام پر سمگلنگ اور جسم فروشی کا نیٹ ورک چلانے والے 12مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان میں 8چینی اور 4پاکستانی شہری شامل ہیں۔ اس معاملے پر ہیومن رائٹس واچ نے بھی آواز اٹھائی اور پاکستان کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی چین سمگلنگ کی اطلاعات سے متعلق ہوشیار رہنے کے لیے خبردار کیا۔ کچھ غیر ملکی چینلز اور اخبارات بھی ان اطلاعات کی بنیاد پر پاکستان میں چین کے عزائم اور درپردہ سی پیک سے متعلق شبہات پھیلانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انسانی سمگلنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا مقابلہ ناگزیر ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن جینوا کے بزنس ایڈوائزری بورڈ میں شامل ہونے کی وجہ سے میں اس کی اہمیت اور حساسیت سے واقف ہوں۔ اس پورے ہنگامے میں کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں خواتین کی سمگلنگ کے اعتبار سے بھارت پہلے نمبر پر ہے‘ اس کے بعد بنگلا دیش اور نیپال ہیں۔ پاکستان کا نام سری لنکا کے بھی بعد آتا ہے۔
ایک غیر ملکی انگریزی ٹی وی چینل نے چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپوں کی رپورٹ کو خوب اچھالا اور کہا کہ ان کیمپوں میں ایغور مسلمانوں کے شدت پسند انہ خیالات تبدیل کیے جاتے ہیں اور انہیں اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے‘ لیکن یہی چینل مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اس سے بھی زیادہ بھیانک جرائم بیان کرنے سے کتراتا ہے۔ کیوں؟ بھارتی فوج نے جس طرح کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی ہے‘ انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ سی این این جیسے قابل اعتبار تصور ہونے والے چینل نے معصوم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آنکھ ‘ کان اور زبان بند کررکھے ہیں۔ انسانی المیوں کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ‘ ایک جگہ زیادتیوں کا بیان کرنا مفاد کے خلاف ہو تو خاموشی اور دوسری جگہ صرف خاص مقاصد کے حصول کے لیے مظالم پر واویلا بھی خبر نہیں فریب ہے اور ہائبرڈ وارفیئر کی ایک اور تکنیک ہے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات دیرینہ ہیں اور سی پیک اس تعلق کا ایک اور اہم حوالہ بن چکا ہے ۔ ہم نے ہر طرح کے حالا ت میں چین کا ساتھ دیا ہے۔ بھلے ہی امریکیوں سے ہمارے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی چین سے اپنی مضبوط دوستی پر حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔ توقع ہے کہ افغان امن عمل کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ سے تعلقات میں بہتری آنے لگے گی۔ مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ جعلی اور مصالحے دار خبروں کی رو میں بہنے کے بجائے پورے اطمینان سے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جائے۔ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں دنیا میں اپنی امیج بلڈنگ کے لیے پروپیگنڈے کو بطور ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیا۔ ہم نے 1971ء میں سیاسی ہی نہیں عسکری محاذ پر بھی شکست کھائی تھی لیکن یہ انتہائی غیر معمولی منفی پروپیگنڈے اور بین الاقوامی دباؤ کی بنا پر ممکن ہوا۔ ہم نے خبروں کا سارا کاروبار بھارت پر چھوڑ رکھا تھا۔
سلامتی امور کے ہمارے تجزیہ کاروں کو لیبیا‘ شام‘ یمن‘ عراق اور افغانستان وغیرہ کے حالات پر نظر رکھنی چاہیے اور اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ نام نہاد ''لبرل‘‘ میڈیا محب ِوطن ہے یا ہمارے دشمنوں کے عزائم کے مطابق مصالحے دار خبریں پھیلاتا ہے۔ ''آزادیٔ اظہارِ رائے‘‘ کی آڑ میں دشمنوں کا پروپیگنڈا پھیلانے والے عناصر کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیبیا‘ شام‘ یمن ‘ سوڈان (اور قریب قریب مصر اور ترکی) کو ''آزادیٔ ظہارِ رائے‘‘ نے کس نہج پر پہنچایا؟ آزادی بردباری اور ذمے داری کا تقاضا کرتی ہے۔ موجودہ طرزِ عمل کے برخلاف انتہائی احتیاط اور مہارت سے دنیا پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ متواتر حملوں کے باوجود ہم ہائبرڈ وارفیئر کے ان حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے تعلقات دیرینہ ہیں اور سی پیک اس تعلق کا ایک اور اہم حوالہ بن چکا ہے ۔ بھلے ہی امریکیوں سے ہمارے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی چین سے اپنی مضبوط دوستی پر حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔ توقع ہے کہ افغان امن عمل کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ سے تعلقات میں بہتری آنے لگے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں