"FBC" (space) message & send to 7575

قومی وحدت کا درست تصور

کمزور معیشت، بڑھتی غربت، تعلیمی بحران اور دیگر کئی مسائل نے ہمیں مزید مسائل تخلیق کرنے سے کبھی باز نہیں رکھا۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ رمضان کب شروع ہو گا اور عید کب ہو گی۔ اگر ایک ہی وقت میں ہر علاقے میں چاند نہ دیکھا جا سکے یا ایک علاقے کے لوگ چاند کی رویت پر متفق نہ ہو سکیں تو پھر؟ یہ اس لیے ایک مسئلہ ہے کہ تسلسل سے حکومتیں یہی مانتی رہی ہیں کہ رمضان ملک میں ایک ہی دن شروع ہونا چاہیے اور سب کے لیے ایک ہی عید ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے پاکستان کی پہلی رویتِ ہلال ویب سائٹ کا افتتاح کیا‘ جس پہ پانچ سال کا ایک نیا قمری کیلنڈر موجود ہے۔
شیخ ڈاکٹر ھیثم الحداد ''اکیسویں صدی میں اسلام‘‘ کا دلچسپ نام رکھنے والے ایک ویب پیچ پر وضاحت کرتے ہیں کہ مہینوں کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم قانونی مہینہ ہے جسے رمضان کہا جاتا ہے اور دوسری قسم فلکیاتی (سائنسی) مہینہ ہے جو کہ قمری کیلنڈر کا نوواں ماہ ہے۔ تمام اسلامی احکام پہلے مہینے سے متعلق ہیں جو فلکیاتی مہینے کے ساتھ وقوع پذیر ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ فلکیاتی مہینے کی شریعت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں‘ لہٰذا کوئی اسلامی حکم اس پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اکیسویں صدی میں کی جا رہی ہیں۔ فاضل شیخ سائنسی طریقہ کار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہی نقطہ نظر ہمارے زیادہ تر علمائے دین کا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخِ اسلام میں نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان ایک دور ایسا بھی تھا جب اسلامی دنیا سائنسی تحقیق میں قائدانہ کردار ادا کر رہی تھی‘ اور ان تحقیقات کو بروئے کار لانے سے دنیا کی غالب قوت بن چکی تھی۔ پورے مسیحی یورپ سے طالبانِ علم طب، فلکیات، طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم کا مطالعہ کرنے قرطبہ و بغداد، قاہرہ و اصفہان آتے تھے۔ جب سائنس کی افادیت پر شک کرنے والوں کو برتری حاصل ہونا شروع ہوئی تو اسلامی دنیا زوال کا شکار ہو گئی اور یورپ مسیحی کلیسا کی زنجیروں سے خود کو آزاد کر کے سائنس میں برتری لے گیا۔ اکیسویں صدی میں اس بات پر اصرار کہ اسلام پر عمل کرنے کے طریقے کے حوالے سے سائنس کی کوئی اہمیت نہیں، ظاہر کرتا ہے کہ کچھ لوگ حالات کو اسی نہج پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ 
اس حوالے سے ایک اور دلیل بھی ہے۔ سائنس کیا ہے؟ سائنس قوانینِ فطرت کا مطالعہ ہے۔ دنیا کس نے تخلیق کی اور کس نے وہ قوانین ترتیب دئیے جن کے مطابق فطرت کام کر رہی ہے؟ اسی اللہ نے جس نے پیغمبرِ اسلامﷺ پر قرآن نازل کیا۔ حتیٰ کہ قرآن پاک بھی ہمیں چاند اور ستاروں کا مشاہدہ کرنے، خدا کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے اور ان کا مقصد سمجھنے کی تاکید کرتا ہے۔ تو کیا کلامِ الٰہی اور سائنس کے درمیان کوئی خلیج حائل ہو سکتی ہے جسے پاٹنا ممکن نہ ہو؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ دونوں کا سر چشمہ ایک ہے لہٰذا یہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے متضاد نہیں۔ نبی اکرمﷺ کو اس کا علم تھا اور سیرت سے اس پر عمل کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ آپﷺ شعبان میں دنوں کی گنتی کسی بھی دوسرے وقت کی نسبت زیادہ احتیاط سے کرتے تھے‘ اور جب رمضان کا نیا چاند نظر آ جاتا تو روزہ رکھتے۔ جب چاند بادلوں کی وجہ سے نظر نہ آتا تو آپﷺ تیس دن پورے کرتے اور پھر اگلے ماہ کا آغاز فرماتے۔ 
پوری دنیا میں اسلام کے پھیلنے کے ساتھ مختلف برادریوں کو اپنے تجربے پر انحصار کرنا پڑا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو جوڑنے والا امت کا تصور اس بات کو لازم نہیں ٹھہراتا کہ رویتِ ہلال پوری دنیا میں یکساں ہو۔ صرف کچھ بنیادی اصول طے کر دیے گئے ہیں‘ لیکن ان اصولوں کی حدود میں رہ کر مسلمان اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق بندوبست کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اسلام کا ایک مرکزی اصول یہ ہے کہ اس میں کوئی جبر نہیں‘ لہٰذا مسلمانوں کو بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں ایک عید کرنے پر کیوں مجبور کیا جائے؟ خاص طور پر اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ سائنسی اور ''اسلامی‘‘ طریقہ کار میں فرق ایک دن سے زیادہ کا نہیں ہو سکتا۔ پشاور میں ایک بار پھر دو عیدیں ہوئیں... ایک پشتون علاقوں میں اور دوسری کنٹونمنٹ علاقوں میں۔ اور دونوں امن سے گزر گئیں۔ پاکستان (اور شاید کچھ دیگر مقامات پر بھی) لوگوں میں اتحاد قائم کرنے کے نام پر یکسانیت تھوپنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس رجحان کا نقصان پاکستان پہلے بھی اٹھا چکا ہے۔ 1971 میں آدھا ملک گنوا دیا گیا کیونکہ مرکزی حکومت نے قوم کو متحد کرنے کی کوشش میں اردو کو پورے ملک کی واحد قومی زبان اور شلوار قمیص کو واحد قومی لباس قرار دیا، نیز ثقافتی، سماجی اور معاشی طور پر متنوع ملک کی حکمرانی کو مرکوز کر دیا گیا۔ آج تک ہم نے اپنی ہی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ اب تک لسانی کمیشن پاکستان میں زبان کا مسئلہ حل نہیں کر سکا اور صوبوں کو خود مختاری دینے کے لیے کی گئی اٹھارہویں ترمیم دھوکا ہے۔ 
ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بالکل مختلف لوگ نہ صرف اکٹھے رہ سکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون، احترام اور محبت سے بھی پیش آ سکتے ہیں۔ میرے والد پنجابی تھے اور میری والدہ بنگالی تھیں۔ والد ایک فوجی تھے اور والدہ بنگال کے دل بوگرہ کے ایک خوشحال جاگیردار گھرانے سے تھیں‘ لیکن کلکتہ میں پلی بڑھیں۔ میرے والد کبھی مچھلی چاول کھانا نہ سیکھ سکے‘ جبکہ میری والدہ کو میرے والد کی دال روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی۔ میرے والد مذہبی ذہن کے تھے، میری والدہ اس معاملے میں قدرے معتدل تھیں۔ یہ سب فرق ہمارے گھر میں یا ان دونوں کے درمیان کبھی مسائل کا سبب نہیں بنے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کھا، پہن اور عبادت کر سکتا تھا۔ یہ ازدواجی تعلق انتہائی خوشگوار تھا اور ہم دونوں بچوں یعنی میری مرحومہ ہمشیرہ اور میں نے دونوں طرف کے فوائد حاصل کیے۔ 1971 میں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان بہنے والے خون کے دریاؤں کے باوجود ٹو ای بنگال کے سی او نے 2008 میں ڈھاکا کے اندر مجھے لیفٹیننٹ کرنل عبدالمجید سہگل کی تصویر پیش کی‘ جنہوں نے 1949 میں بہ طور میجر یہ یونٹ بنایا تھا۔ تصویر پر ٹو ای بنگال کے تمام افسروں کے دستخط تھے۔ اتفاقی طور پر سی او 1971 میں ہی پیدا ہوا تھا۔ میرے والدین کلفٹن، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ 
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شعائرِ اسلام پر عمل ہونا چاہیے اور رویتِ ہلال‘ جو قمری مہینے کی بنیاد ہے‘ اس کے شعائر میں سے ہے۔ لیکن یکسانیت اسلام کے شعائر میں سے نہیں ہے۔ قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے ہم سب کو مختلف بنایا تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ہم سب کے اختلافات تلے خدا کی وحدت کارفرما ہے۔ ہم سب کے درمیان سب فرق خدا داد ہیں اور اسی نے ہمیں یہ حق عطا کیا ہے۔ یہ ہمیں اتحاد قائم کرنے سے نہ انسانی تعلقات میں روکتے ہیں نہ ایک مملکت کی سیاست میں۔ اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اس کا مقصد صرف پاکستانی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنا ہے۔ علامہ اقبال تو یہ نقطہ نظر بھی رکھتے تھے کہ امت کا مطلب انسانیت ہے کیونکہ تمام لوگ اسلام کی صداقت کو پہنچانے کے مختلف درجوں پر موجود ہیں؛ اگرچہ انہیں اس کا علم نہیں۔ اسلام اپنے عالمی نصب العین کو تب ہی پا سکتا ہے‘ اگر یہ تمام معاشی، معاشرتی اور ثقافتی امتیازات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر کے یکسانیت مسلط کیے بغیر انسانیت کو متحد کرے۔ حکومت کے اندر اور باہر موجود پاکستانی مسلمانوں کو آخر کار یہ اہم سبق سیکھ لینا چاہیے کہ ہمیں تنوع میں اتحاد کی کوشش کرنی ہے۔ ایسا کرنے سے صرف دو عیدوں کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ کئی دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں