ہم نے ''اطلاعاتی انقلاب‘‘ کے بجائے کالم کا عنوان ''اطلاعاتی سیلاب‘‘ رکھا ہے‘ کیونکہ جب سیلابِ بلاخیز آتا ہے‘ اس میں جھاڑ جھنکار سب کچھ ہوتا ہے اور پھر وہ ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے۔ تباہی و بربادی لاتا ہے۔ اس تباہی میں اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی۔ بس جو سامنے آیا اُسے نشانے پہ رکھ لیا۔ یہی صورتحال ''اطلاعاتی سیلاب‘‘ کی ہے۔ جو خبر ہاتھ لگی‘ سچ اور جھوٹ کی تمیز کے بغیر اُسے مارکیٹ میں اچھال دیا‘ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے عواقب ونتائج کیا ہوں گے۔ شرفا کی پگڑی اچھالی جاتی ہے‘ عزت پامال کی جاتی ہے اور اسے تفاخُر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس سے اپنے ممدوح کا تقرّب حاصل ہوتا ہے۔ آج کل ہمارا معاشرہ اسی فساد کی آگ میں جل رہا ہے۔
ایک المیہ یہ ہے: جدید سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل شہروں تک محدود نہیں رہے‘ تمام ایپس تک دیہاتیوں کی بھی رسائی ہے‘ نتیجتاً اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کی خرابیاں بھی نمایاں ہوتی جا رہی ہیں حتیٰ کہ جدید سائنسی دنیا کے جدِّ اعلیٰ امریکہ کیلئے بھی اسے حدود میں رکھنا دشوار ہو رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو خود اس کا شکار رہا ہے‘ ٹویٹر کمپنی نے کافی عرصے تک ان کا اکائونٹ بند کیے رکھا‘ اب سنا ہے کھل گیا ہے۔ حال ہی میں امریکی کانگریس نے ''ٹِک ٹاک‘‘ کی بندش کے بارے میں ایک قانون منظور کیا ہے۔ ''حقِ آزادیِ اظہار‘‘ جسے مغربی ممالک میں عقیدے کا درجہ حاصل تھا اور اس پر قدغن لگانے کا تصور بھی نہیں تھا‘ امریکہ آج تفاخر سے اس سے دستبردار ہو گیا ہے اور موجودہ قانون آزادیِ اظہار پر پابندی کا نقطۂ آغاز ہے‘ حالانکہ مغربی ممالک پاکستان جیسے ملکوں کی مُشکیں کستے رہتے ہیں کہ یہاں پریس آزاد نہیں ہے‘ آزادیِ اظہار پر پابندی ہے‘ لیکن اب خود امریکہ میں پابندی کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی ؍ وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
چونکہ ''ٹِک ٹاک‘‘ کی ایپ چین کے کنٹرول میں ہے‘ اس لیے امریکہ کو صرف وہ آزادیِ اظہار مطلوب ہے‘ جس کی چابی اور کنٹرول اُس کے پاس ہو‘ حالانکہ ایکس کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو ایلون مَسک نے ٹک ٹاک پر پابندی کو آزادیِ اظہار کے منافی قرار دیا ہے‘ امریکہ چاہتا ہے: ''امریکہ کی حد تک ٹِک ٹاک کا کنٹرول کسی امریکی کمپنی کو دیا جائے تاکہ ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود ہوں‘‘ جبکہ ہمارے ملک میں جو سوشل میڈیا کی مختلف ایپس چل رہی ہیں‘ ان کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں بعض امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات نے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے‘ امریکی پولس نے انہیں گرفتار کیا‘ بعض کانگریس اراکین نے مطالبہ کیا کہ ان یونیورسٹیوں کے صدور کو برطرف کرنا چاہیے یا انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے اور اب احتجاج پر آمادہ طلبہ و طالبات کا داخلہ معطل کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی کام ہمارے ملک میں ہوتو مغربی ممالک اور خود ہمارے ہاں آزادیِ اظہار کے سرخیل اسے آزادیِ اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیں گے۔
اب ہمارے ہاں سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے: دہشت گردی کے ماحول میں اداروں کی حدودِ کار پر ازسرِ نو غور ہونا چاہیے۔ یہ بات تو بلاشبہ ہر ایک کو اپیل کرتی ہے کہ ہمارا نظامِ عدل اعلیٰ قانونی اور اخلاقی معیارات کا حامل ہونا چاہیے‘ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہمارے ملک میں موجودہ ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کے تحت عدالتوں کے ذریعے کسی مجرم کو سزا کے مرحلے تک پہنچانا عملاً ممکن ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے: '' لاپتا لوگوں کو تلاش کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے‘‘ اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہی اچھی بات ہو گی‘ لیکن اداروں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں: جو خود ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں یا جنہوں نے ملک کے اندر اور ملک سے باہر اپنے لیے کمین گاہیں بنا رکھی ہیں‘ انہیں کس کھاتے میں شمار کیا جائے اور ان کی نشاندہی کس طرح کی جائے‘ کیونکہ بالفرض اگر وہ کہیں نشانہ بن جائیں یا واردات کرتے ہوئے پکڑے جائیں یا مارے جائیں‘ تب تو اُن کے نام منظرِ عام پر آ جاتے ہیں‘ ورنہ وہ گم شدگان کی فہرست میں آتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب مشکل یہ ہے: کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں‘ کتنے ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور کتنے مفرور ہیں‘ جب تک یہ مفصَّل اعداد وشمار سامنے نہیں آتے‘ سب ایجنسیوں کے کھاتے میں شمار کئے جاتے ہیں اور اسی سبب معاشرے میں اداروں اور عوام کے درمیان نفرتیں اور تقسیم در تقسیم کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔
الیکٹرانک میڈیا نے پہلے پرنٹ میڈیا کو بے اثر کیا‘ اب سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے الیکٹرانک میڈیا کو بے اثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے''ففتھ جنریشن وار‘‘ کے نام پر نوجوانوں کو ٹریننگ دی گئی‘ اُن کی ذہن سازی کی گئی‘ پھر یہ تربیت یافتہ اثاثہ تحفے کے طور پر پی ٹی آئی کو منتقل کر دیا گیا اور پی ٹی آئی نے اسے سائنٹیفک طریقے سے خوب استعمال کیا۔ شنید ہے کہ اس کے مراکز ملک سے باہر بھی قائم ہیں‘ اب ریاستی ادارے بھی ان کے نشانے پر ہیں‘ لیکن اُن کو قابو میں رکھنے یا کسی ضابطے کے تحت لانے کی کوئی مؤثر حکمتِ عملی تاحال حکومت اور ریاستی اداروں کو سجھائی نہیں دے رہی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے: یہ بہت سے لوگوں کیلئے روزگار کا بھی وسیلہ بن گیا ہے‘ حق و باطل کی تمیز کے بغیر یہ دیکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریٹنگ کس پر مل سکتی ہے‘ کیونکہ اسی پر اشتہارات کے ذریعے آمدنی کا مدار ہے۔ پس قرآنِ کریم میں جن امور کوکذب‘ قَذَف (عورتوں پر تہمت لگانا)‘ اتّہام‘ تمسخر‘ تَنَابُز بِالْاَلْقَاب (برے ناموں سے پکارنا)‘ ھُمَزو لُمَز (اشارات وکنایات سے کسی کی تحقیر کرنا) اور غیبت وبہتان سے تعبیر کیا ہے اور یہ سب چیزیں گناہ ہیں‘ مگر اب مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے ان سب چیزوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نہ خالق کا خوف دل میں رہا اور نہ خَلق کا۔ گناہ کو لذت اور منفعت کے حصول کا ذریعہ اور وسیلۂ معاش بنا لیا گیا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ اخلاقی تنزل کی انتہا ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''ایک شخص نے کسی فقیر کو حرام مال سے کچھ دیا اور اس پر وہ (اللہ تعالیٰ سے) ثواب کی امید لگا رہا ہے‘ کافر ہو جائے گا‘ اور اگر اس فقیر کو معلوم ہے (کہ یہ مالِ حرام ہے اور اس کے باوجود وہ) اس کے لیے دعا کرے اور دینے والا ''آمین‘‘ کہے‘ تو دونوں نے کفر کیا‘‘ (ردّالمحتار علی الدر المختار‘ ج: 2، ص: 292)۔ یہ کفرِ اعتقادی تو نہیں‘ اسے کفرِ عملی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اپنی کمائی سے پاکیزہ چیزوں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں اورحقیر اور ناقص چیز کو (اللہ کی راہ میں) دینے کا قصد نہ کرو جس کو تم خود بھی آنکھیں بند کیے بغیر ایسی چیز لینے والے نہیں ہو‘‘ (البقرۃ:267)۔ یعنی جو چیز تمہاری نظروں سے گر جائے‘ بے توقیر ہو‘ اُسے اللہ کی راہ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ (العیاذ باللہ!) تمہارے نزدیک اللہ کی پسند تمہاری پسند سے بھی کمترہے‘ پس اگر مالِ حرام کے تصدّق پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھنا کفر ہے‘ تو اِن مذموم اور قبیح افعال کو کسی بھی درجے میں خیر سمجھنے کی دین میں کیسے گنجائش نکل سکتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے: جِنّ کو بوتل سے نکالنے کا منتر تو آتا ہے‘ لیکن واپس بوتل میں بند کرنے کا مَنتر نہیں آتا‘ سو اپنے ہاتھ سے لگا کر پروان چڑھائے ہوئے درخت کا پھل کڑوا ہو جاتا ہے‘ لیکن اُسے برداشت کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ بحرانوں کی ماں یہ ہے: قوم‘ سیاسی جماعتیں و زُعَما اور دانشور‘ سب بٹے ہوئے ہیں‘ اس لیے ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے کوئی جامع اور دیرپا قومی پالیسی بنانے کے امکانات بھی بظاہر معدوم ہیں اور مستقبلِ قریب میں بھی کسی مثبت تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی صورتحال پیدا فرما دے‘‘ (الطلاق: 1)۔