رُلتے کسان‘ جھپٹتی پولیس اور پنجاب حکومت

ہم اور تو کچھ نہیں کر رہے‘ بس دو کام کر رہے ہیں‘ ایک تو زیادہ سے زیادہ قرض لے رہے ہیں اور دوسرے نت نئے سیکنڈل بنا رہے ہیں۔ جب بھی کوئی سیکنڈل سامنے آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو سب سے بڑا سیکنڈل ہے۔ کبھی سیاسی سیکنڈل‘ کبھی معاشی سیکنڈل اور کبھی مالیاتی سیکنڈل۔ اس وقت پنجاب کے کسان گندم سکینڈل کی وجہ سے رُل رہے ہیں‘ اپنی خون پسینے کی محنت سے اگائی ہوئی گندم کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ وطن کو خوراک میں خود کفیل بنانے والے ان محبانِ وطن کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے بجائے پولیس انہیں پیٹ رہی ہے۔ حکومت نے 3900 روپے فی من گندم کی خریداری کا اعلان کرکے اُن سے اناج کا آج تک ایک دانہ بھی نہیں خریدا۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کسان گندم لے کر منڈی میں جاتا ہے تو اس سے آڑھتی 2900روپے فی من بھی خریدنے کو تیار نہیں جبکہ اتنے پیسوں میں اس کے پیداواری اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔ ان حالات میں بے بس‘ کنفیوزڈ اور حقیقتِ حال سے بے خبر پنجاب حکومت ٹک ٹک دِیدم دَم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر جب پاکستانی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے تو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہ ناقص منصوبہ بندی یا تخمینے کی غلطی نہیں‘ دن دہاڑے بدنیتی کا قصہ ہے۔ اصل سیکنڈل کی ہولناکی سے پردہ ہٹانے سے پہلے آپ کو یہ بتا دوں کہ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے دیہات میں گھر گھر اور کھیتوں کھلیانوں میں جا جا کر کسانوں سے سرکاری ریٹ پر گندم خریدی تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے زور پر کاشتکاروں کے گھروں سے اُن کے بھڑولے بھی خالی کروا لیے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس سال کسانوں نے بہت محنت کی اور گندم کی پیداوار نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔
امسال صوبے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 لاکھ ٹن زیادہ گندم پیدا ہوئی ہے۔ اس سال کسانوں کے جدید ٹیکنالوجی‘ نہایت قیمتی اور اعلیٰ بیج اور مؤثر کھاد کے استعمال سے فی ایکڑ پیداوار میں 10 سے 20 من فی ایکڑ اضافہ ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اتنی بڑی اضافی کامیابی پر کسانوں کو ایوارڈ دیے جاتے اور قومی میڈیا اُن کی زبردست حوصلہ افزائی کرتا‘ مگر ہوا اس کے برعکس کہ گندم کے کاشتکاروں کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں‘ اُن سے گندم لینے سے انکار کر دیا گیا اور ان میں سے کچھ کو پسِ دیوارِ زنداں بھیج دیا گیا۔
اب سنیے اس کے پیچھے واردات کتنی بڑی ہوئی۔ ایک صاحبِ علم سینیٹر نے چار‘ پانچ روز قبل سینیٹ آف پاکستان میں پورے اعداد و شمار اور استدلال کے ساتھ ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔ ان انکشافات کے مطابق 22 اکتوبر 2023ء تک پاکستان کے پاس 60 لاکھ ٹن گندم کے وسیع تر ذخائر موجود تھے۔ ان ذخائر کی موجودگی میں گندم کا ایک دانہ بھی درآمد کرنے کی ضرورت نہ تھی‘ مگر تب سے آج تک تقریباً 34 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی گئی ہے۔ حیران کن اور باعثِ صد افسوس امر یہ ہے کہ اکتوبر 2023ء میں وفاقی کابینہ کے باقاعدہ اجلاس میں نہیں بلکہ سرکولیشن سے ایک ارجنٹ سمری کی منظوری حاصل کی گئی۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سمری 22 اکتوبر کو منظوری ہوئی اور صرف آٹھ دن بعد پہلا جہاز یوکرین سے پاکستان پہنچ بھی گیا۔ یوکرین سے پاکستان تک کے بحری سفر میں کم از کم 20 سے 22 دن لگتے ہیں مگر یہ کون سا ایسا ''باخبر‘‘ شخص تھا جس نے پہلے سے بینکوں سے ایل سی کھلوا لی اور زرِ مبادلہ کا بندوبست کر لیا اور گندم بک کروا دی اور امپورٹ کے اجازت نامے کے اعلان کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی یہ گندم پاکستان پہنچ گئی۔ اب بھی کراچی بندرگاہ پر یوکرین کی گندم سے لدے ہوئے تین جہاز اور کھڑے ہیں۔ درآمد کردہ گندم فی من 3100 روپے پڑی جبکہ اسے 4500 روپے فی من فروخت کیا گیاجس سے کم از کم 85ارب روپے ''منافع ‘‘کے طورپر حاصل کیا گیا ۔
تین اہم ترین سوال یہ ہیں کہ جب اکتوبر2023ء میں پنجاب میں گوداموں میں 40 لاکھ ٹن گندم پڑی تھی اور مارچ میں نئی فصل آنے والی تھی تو پھر یوکرین سے گندم کیوں منگوائی گئی؟ جس کی یہ ذمہ داری متعین ہو‘ اسے قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس مذکورہ بالا باخبر شخص کا سراغ لگا کر سسپنس سٹوری کے سارے ''گنجل‘‘ کھولے جائیں اور سب کو سخت سزا دی جائے۔تیسرا سوال پنجاب حکومت سے یہ ہے کہ جب اسے علم تھا کہ گوداموں میں اس کی 60 لاکھ ٹن گندم موجود ہے تو اس نے ملوں پر کیوں نہیں پابندی لگائی کہ وہ یوکرینی نہیں‘ پاکستانی گندم خریدیں۔ نیز پنجاب حکومت نے نئی فصل آنے کے بعد بھی درآمدی گندم کو پنجاب میں کیوں آنے دیا۔ کیا یہ قابلِ گرفت غفلت نہیں؟ اتنے بڑے سیاسی قائد میاں نواز شریف کی سرپرستی میں قائم پنجاب حکومت نے بھی احتجاج کرنے والوں سے وہی سلوک کیا جو پی ٹی آئی کی حکومت صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کے ساتھ کیا کرتی تھی۔
اس وقت کسان مظلوم ہیں‘ پنجاب حکومت نے اُن سے گندم نہ خرید کر اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داری سے روگردانی کی ہے۔ اس طرح کے مناظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو‘ اصل حکمرانی تو بیورو کریسی ہی کی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے میگا سیکنڈل کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے یک رکنی کمیشن بظاہر بہت کمزور محسوس ہوتا ہے۔
گورننس کی یہ کتنی بڑی ناکامی ہے کہ زمیندار اور کاشتکار کام کے سیزن میں سڑکوں پر ذلت و خواری سے دوچار ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اُمڈتے ہوئے گندم کے طوفانی بحران سے آنکھیں چرارہی ہیں اور بعض نان ایشوز کے حوالے سے دیہات میں جا کر خواتین سے اظہارِ ہمدردی کر رہی ہیں ۔غالباً اس سے مقصود سوشل میڈیا کی مقبولیت ہو گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس بحران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھلے دل سے اعتراف کریں کہ اس بحران کے کسان نہیں‘ حکمران ذمہ دار ہیں۔ پنجاب حکومت بلاتاخیر کسانوں سے گندم خریدنے کی کمٹمنٹ پوری کرے اور سارا اناج اپنی متعین کردہ قیمت پر خریدے۔ آگے چل کر پہلے سے محفوظ گندم ہمارے بہت کام آئے گی۔
گوداموں کی کمی کا عذر غیرحقیقی ہے۔ آج ہی ہمیں ایک سابق جی ایم ریلوے اور جھنگ کے نیک نام درمیانے درجے کے زمیندار چودھری محمد بشیر بَل نے فون پر بتایا کہ برسوں سے عارضی نائیلون کی شیٹوں اور ترپالوں سے گندم محفوظ کرنے کا طریقہ پنجاب میں رائج رہا ہے‘ اس طریقے کے مطابق دو تین سال تک گندم کی کوالٹی میں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اب بھی اسے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ سننے میں آیا ہے کہ چھوٹے کسانوں کو پنجاب حکومت سبسڈی دینے پر غور کر رہی ہے۔ کسان بورڈ کے سردار ظفر حسین نے ہمیں بتایا کہ کاشتکار اللہ کے فضل اور اپنے دستِ بازو سے گندم اگاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہماری محنت کی قدر کی جائے اور حکومت اپنی مقرر کردہ قیمت پر ہم سے فی الفور گندم خریدے۔ کسانوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم بھکاری نہیں اس لیے ہم کسی بھی طرح کی سبسڈی کو مسترد کرتے ہیں۔
اس میگا سیکنڈل پر ''مٹی پاؤ‘‘ کا مطلب ہو گا کہ ہم کرپشن روکنے میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی ترقی کرنے میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں