"KMK" (space) message & send to 7575

بدحال کاشتکار اور خوشحال مافیا …(آخری)

ابھی ملکی گندم کے وافر نہ سہی‘ مگر مناسب ذخائر موجود تھے کہ امپورٹ مافیا نے گندم درآمد کرنے کیلئے ماحول بنانا شروع کر دیا۔ حکومت (شہباز شریف حکومت) کو دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی تجویز پیش کی گئی مگر بوجوہ یہ تجویز مسترد کردی گئی۔ اسی اثنا میں نگران حکومت آ گئی۔ اُسی لابی نے دوبارہ گندم کی متوقع شارٹیج کو بنیاد بنا کر دوبارہ چکر چلایا اور گندم درآمد کرنے کی منظوری لے لی۔ غضب خدا کا کہ یہ منظوری مختلف حیلوں بہانوں سے بڑھتی گئی اور دس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی سمری رد ہونے کے بعد نگران دورمیں بڑھتے بڑھتے 34لاکھ ٹن کے ہندسے کو عبور کر گئی۔ درآمد کردہ گندم کی کل مالیت 283 ارب روپے کے لگ بھگ تھی‘ یعنی یہ درآمد شدہ گندم امپورٹر کو 3300روپے من کے لگ بھگ پڑی جو مقامی مارکیٹ میں ساڑھے چار ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت کی گئی۔ اس لوٹ مار کا محتاط حساب درج ذیل ہے۔
283 ارب روپے میں 34لاکھ ٹن گندم کا مطلب ہے فی ٹن گندم تقریباً83ہزار 235 روپے کی پڑی۔ ایک ٹن میں 25من ہوتے ہیں‘ تو فی من یہ قیمت 3329روپے ہو گئی۔ اس پر آپ مزید 171روپے فی من مختلف خرچے لگا لیں تو یہ گندم امپورٹر کو 3500 روپے فی من میں پڑی اور 4500 روپے فی من فروخت کی گئی۔ یعنی ایک ہزار روپے فی من کا کھانچہ لگایا گیا۔ 34لاکھ ٹن کا مطلب ہے آٹھ کروڑ 50لاکھ من۔ ان اعداد و شمار کو ایک ہزار سے ضرب دیں تو یہ رقم 85 ارب روپے بنتی ہے۔ اس ملک کی تباہ شدہ معیشت کو مزید قرضوں کے وینٹی لٹیر کے ذریعے مصنوعی تنفس پر چلایا جا رہا ہے لیکن کھانچہ مافیا اب کروڑوں کی گیم سے نکل کر اربوں روپے والے سلیب میں داخل ہو چکا ہے۔
برسوں سے ایک چکر چل رہا ہے اور وہ یہ کہ کسی جنس کی پیداوار زیادہ ہو تو برآمد کرکے سبسڈی اور ڈیوٹی ڈرابیک کے نام پر اربوں روپے کما لیے جائیں اور شارٹیج ہو جائے تو درآمد کی مد میں اربوں روپے عوام کی جیب سے نکال لیے جائیں۔ تاہم اس ملک کا شوگر مافیا‘ جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ حصہ دار ہے‘ ایسا طاقتور ہے کہ پہلے ملکی ضرورت سے زیادہ چینی ہونے کا شور مچا کر چینی برآمد کرنے کے عوض زرِ مبادلہ ملک میں لانے کا شوشہ چھوڑ کر برآمد کی اجازت لے لیتا ہے اور اس میں لمبے نوٹ کما لیتا ہے۔ پھر اس برآمد کے نتیجے میں ہونے والی شارٹیج کے طفیل چینی کے ریٹ بڑھا کر دوبارہ عوام کی جیب کاٹ لیتا ہے۔ 2019-20ء میں عمران خان کے دور میں شوگر ملز مالکان نے 48 ارب روپے سے زیادہ کا ڈاکا مارا تھا۔تب بھی اس ڈاکے کے حصہ داروں میں ملزمالکان کا ساتھ دینے میں فوڈ سکیورٹی‘ تجارت اور خزانہ کے محکموں کے بابو پوری طرح شامل تھے۔ اس بار بھی اس ساری لوٹ مار میں امپورٹرز کے دست و بازو یہی محکمے اور ان محکموں کو چلانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقابلے کے امتحان میں اپنی قابلیت ثابت کرنے والے بیورو کریٹس ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست کے نظام کو منافع بخش انداز میں چلانے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ حسبِ معمول اب ایک عدد انکوائری ہو گی۔ اول تو اس کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلے گا اور اگر نکلا بھی تو ایک دو نچلے درجے کے افسروں کو معمولی سزائیں ہوں گی اور ٹاپ لیول کے بیورو کریٹس کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر چند ماہ کیلئے او ایس ڈی بنا دیا جائے گا اور دو چار ماہ بعد وہ کسی دوسرے سرکاری محکمے میں اپنے ہاتھ کی صفائی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کیلئے دوبارہ کرسی سنبھال لیں گے۔ سرکاری محکموں میں یہ چکر قیامِ پاکستان سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس ملک میں بے ایمان سرکاری افسر کو فارغ نہیں‘ تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے فن اور لوٹ مار کے تجربے کا مظاہرہ مختلف محکموں اور مختلف علاقوں میں کرتا پھرے اور اس کی خدا داد صلاحیتوں سے دیگر محکموں اور علاقوں کے لوگ محروم نہ رہ جائیں۔
1947ء میں اس ملک کی گندم کی پیداوار تین ملین ٹن کے لگ بھگ تھی تاہم آبادی بھی کم تھی۔ پھر گندم کی پیداوار اور ملکی آبادی گولی کی رفتار سے بڑھتی گئی۔ میں نے بچپن میں گندم کی فصل کی کٹائی‘ گہائی اور چھڑائی کس صورت میں دیکھی ہے اس پر کبھی پھر سہی‘ فی الوقت تو حالیہ مصیبت کی پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جو گندم کی فصل‘ ملکی آٹے کی ضرورت اور اس کے نتیجے میں طلب و رسد کے مابین توازن کے بارے میں بہت زیادہ علم رکھتے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کی فصل اور ملکی کھپت و ضرورت میں فرق تو تھا لیکن یہ کسی صورت دس لاکھ ٹن سے زیادہ نہ تھا۔ یعنی 34لاکھ ٹن گندم بلا ضرورت درآمد کی گئی اور اس کا مقصد صرف شارٹیج کے ڈراوے سے کام چلاتے ہوئے اپنا مال بیچ کر منافع کھرا کرنا تھا اور امپورٹ مافیا اس میں کامیاب رہا۔ لوٹ مار کے لیول کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ سندھ میں گندم کی فصل اپریل کے آغاز پر جبکہ پنجاب میں گندم کی فصل 20اپریل تک تیار ہو کر کٹائی پر آ جاتی ہے اور ملکی ضرورت کیلئے دستیاب ہوتی ہے مگر اس ظالم اور بے رحم مافیا کی درآمد کردہ گندم ملک میں گندم کی نئی فصل آ جانے کے باوجود جہازوں پر آتی رہی۔ حتیٰ کہ اس سلسلے میں 50ہزار ٹن گندم سے لدا ہوا بحری جہاز صرف پانچ چھ دن قبل کراچی کی بندرگاہ پر پہنچا ہے جبکہ گندم کے کاشتکار کو اپنی گندم کو فروخت کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ملکی فصل کو بیوپاری اور ملز مالکان کوڑیوں کے بھاؤ خرید رہے ہیں۔ کاشتکار برباد ہو رہے ہیں لیکن امپورٹ مافیا‘ بیوپاری اور ملز مالکان کی پانچوں گھی میں ہیں اور حکومت انکوائری انکوائری کھیل رہی ہے۔
نئی فصل مارکیٹ میں آنے سے پہلے کی صورتحال یہ ہے کہ ملکی سٹوروں میں گندم کا سٹاک 45 لاکھ ٹن کے لگ بھگ تھا۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آج سے ایک ماہ قبل جب سندھ کی گندم مارکیٹ میں آنا شروع ہوئی تب تک محض بیس پچیس لاکھ ٹن درآمد شدہ گندم پاکستان پہنچ پائی تھی۔ یعنی تب بھی پندرہ بیس لاکھ ٹن گندم سرکاری سٹوروں میں موجود تھی۔ اس صورتحال کو سامنے رکھیں تو اس درآمد کا بیشتر حصہ فراڈ‘ ڈکیتی اور لوٹ مار کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ہمارے حکمران‘ خواہ وہ محض الیکشن کرانے پر مامور نگران ہی کیوں نہ ہوں‘ انہی چوروں‘ ڈکیتوں اور لٹیر وں کی سہولت کاری کے علاوہ اور کسی کام کے نہیں ہیں۔ شاہ جی سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ ہمارے ہاں شماریات کا نظام اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔ نہ کسی کو ملکی آبادی کا صحیح علم ہے اور نہ ہی کسی کے پاس کسی چیز کی کھپت کے درست اعدادوشمار کا کوئی میکانزم موجود ہے۔ جب آبادی کا درست ڈیٹا موجود نہیں تو فی کس کھپت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ ہمیں نہ تو گندم کی پیداوار کا درست علم ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی ملکی ضرورت کا۔ میں نے کہا‘ شاہ جی! ملک کی آبادی 23کروڑ 58لاکھ ہے۔ شاہ جی کہنے لگے کہ تم نے یہ اعداد و شمار کہاں سے لیے ہیں؟ میں نے کہا‘ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے‘ جس ملک کی افسر شاہی اپنی آنکھوں کے سامنے ضدوقڑیوں سے نکال کر سامنے میز پر رکھے ہوئے چند ہزار ووٹ ٹھیک طریقے سے نہ گن سکے اور ایک لاکھ ڈالے گئے ووٹوں میں سے آٹھ ہزار ووٹ سے ہارنے والا امیدوار دوبارہ گنتی میں دو ہزار ووٹ سے جیت جائے‘ یعنی اپنی آنکھوں کے سامنے پڑے ہوئے بیلٹ پیپروں کی اپنے ہاتھوں سے گنتی کرنے والے یہ اعلیٰ سرکاری افسر دس ہزار ووٹ اوپر نیچے کر دیتے ہوں‘ بھلا ملک کے طول و عرض میں‘ پہاڑوں اور صحراؤں میں‘ جنگلوں اور بیابانوں میں‘ ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے مسافروں اور خانہ بدوشوں پر مشتمل اس ملک کی ہمہ وقت متحرک آبادی کو کیسے ٹھیک گن سکتے ہیں؟ قارئین! آپ کو تو علم ہی ہے کہ شاہ جی اس قسم کی پریشان کن تھیوریاں پیش کرتے ہی رہتے ہیں۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں