8 مئی کو لاہور میں داتا دربار کے نزدیک حملے میں 10 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں پانچ پولیس اہل کار شامل تھے جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ ایک نوجوان نے مزار کے قریب خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا۔ اس دھماکے کے بعد غیر ملکی میڈیا میں اس معاملے پر بد نیتی پر مبنی کئی تبصرے سامنے آئے۔ مثلاً گلف نیوز‘ ایشیا آن لائن کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر نے پاکستان کو مشورہ دیا ''پاکستان کو خود کُش دھماکوں اور نچلی سطح پر پھیلنے والی عسکریت کو روکنے کے لیے اپنی پالیسی پر از سر نو غور کرنا ہو گا‘‘۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے انسدادِ دہشت گردی کے لیے با صلاحیت فورس تشکیل دینے میں مصروف ہے جو نہ صرف تفتیش و تحقیق کے جدید اور سائنسی طریقوں کے استعمال کے قابل ہے بلکہ انہی خطوط پر تجزیہ کر کے دہشت گردی کے نیٹ ورک اور اسے چلانے والوں تک پہنچنے کے قابل بھی ہے۔ مذکورہ بالا تبصروں اور تجاویز میں سوچ سمجھ کر یا انجانے میں پاکستان کی ان تمام کوششوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے‘ جو وہ اب تک کرتا چلا آ رہا ہے۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کی حالیہ کارروائیاں‘ اقدامات اور کامیابیاں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ داتا دربار پر ہونے والے حملے کے بعد دو ہفتے کے اندر اہم سراغ حاصل کیا گیا۔
سی ٹی ڈی اور آئی بی نے داتا دربار خود کُش حملے کا کیس حل کر کے اپنی اہلیت تسلیم کروائی ہے۔ ان دونوں اداروں کی جوائنٹ آپریشن ٹیموں نے تمام دستیاب ذرائع اور مزار کے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والوں سے پوچھ گچھ کر کے ذمے داران تک رسائی حاصل کی ہے۔ دو اداروں کا اس انداز میں باہمی تعاون کوئی آسان بات نہیں۔ اس کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ہی معلوم ہو سکا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی کی ذمے دار کالعدم ٹی ٹی پی کی ذیلی تنظیم حزب الاحرار ہے‘ جو پہلے اس واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے۔ مزید یہ کہ جائے وقوعہ سے جمع کیے گئے شواہد سے بمبار کی شناخت اور دھماکا خیز مواد کی مقدار بھی معلوم کر لی گئی ہے۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق خود کُش حملہ صادق اللہ مومند نامی ایک افغان شہری نے کیا‘ جو 8 مئی کو ہونے والے حملے سے دو روز قبل یعنی 6 مئی کو طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ وہاں سے اسے ایک پاکستانی اور مہمند ضلع کا رہائشی طیب اللہ عرف راکی لاہور تک لے کر آیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ یہ دونوں لاہور میں محسن خان نامی شخص کے ہاں ٹھہرے‘ جو یہاں ان کا رابطہ کار تھا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ محسن خان ولد بہرام خان شب قدر چار سدہ کا رہنے والا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مزدورں کے بھیس میں لاہور آیا اور بھاٹی گیٹ کے قریب کرائے پر کمرہ حاصل کیا۔ محسن کے کمرے سے تفتیش کاروں نے دھماکا خیز مواد، گرینیڈ، ڈیٹونیٹر برآمد کیے۔ یہ بھی پتا لگا کہ دھماکہ خیز مواد اور خود کُش جیکٹ ایم پی تھری پلیئرز کے اندر چھپا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جاتے تھے۔ محسن خان کی گرفتاری سے لاہور میں حزب الاحرار کے نیٹ ورک سے متعلق اہم معلومات ملیں گی اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے ان کے ممکنہ روابط کے بارے میں بھی اہم تفصیلات حاصل کی جا سکیں گی۔ سی ٹی ڈی اور آئی بی نے طیب اللہ کی گرفتاری کے لیے پورے ملک میں غیر معمولی انداز سے کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی وہ ان کے شکنجے میں ہو گا۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ ابھی تفتیش بتدریج آگے بڑھ رہی ہے لیکن مکمل کامیابی تا حال دور ہے۔ مکمل کامیابی اسی وقت ملے گی جب طیب اللہ گرفتار ہو گا اور اس سے ملنے والی معلومات کے ذریعے اس حملے کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچا جائے گا اور پھر اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔
تفتیش اور تحقیقات کے دوران اس معاملے میں ایک اہم ثبوت سامنے آیا ہے۔ خود کُش بمبار افغانستان سے آیا یعنی افغانستان نا صرف پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں ملوث اور مصروف ہے بلکہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی ''خاد‘‘ پاکستانی دہشت گردوں کے اہل خانہ کو پناہ بھی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ ان کی حفاظت سے بے فکر ہو کر پاکستان میں خون ریزی کرتے رہیں۔ اور یہ تو سبھی کے علم میں ہے کہ خاد کی پشت پر بھارتی خفیہ ادارہ ''را‘‘ ہے۔ ''را‘‘ ہی ان لوگوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے وہی ان کے لئے دوسری سہولتیں بھی پیدا کرتی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ صادق اللہ بنیادی طور پر افغان ہے یا پاکستانی مہمند، وہ پڑوسی ملک سے پاکستان آیا۔ اس پڑوسی ملک سے جو اس وقت پاکستان کو ''دہشت گردی کی معاونت‘‘ کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر مجبوراً باڑ لگا رہا ہے۔ افغانوں کی جانب اس باڑ کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے جب کہ اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے ہمارے کئی فوجی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ یہ باڑ ضرور تعمیر کرے گا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کو اسی طرح روکا جا سکتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ صادق اللہ طورخم کے ذریعے اس لیے آیا کے باقی راستے پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ طورخم میں سکیورٹی الرٹ کی وجہ سے اسے اپنی شناخت ظاہر کرنا پڑی اور وہاں اس نے اپنا اندراج بھی کروایا۔ یہی وجہ تھی کہ اس سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مدد ملی اور آسانی ہوئی۔
اس میں شبہ نہیں کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی پاکستان کے لیے بڑے مسائل ہیں‘ لیکن کم از کم یہ بات تو تسلیم کی جانی چاہیے کہ پاکستان نے اس خطرے کا ادراک کر کے اس کے سد باب کے لئے ضروری کام شروع کر رکھا ہے۔ گلف نیوز ایشیا اور دوسرے مغربی میڈیا کو ''گڈ‘‘ اور ''بیڈ‘‘ طالبان کے گھسے پٹے زاویے سے اس صورت حال کو دیکھنے کے بجائے پاکستان میں افغانستان اور بھارت کی مدد سے ہونے والی دہشت گردی پر کھل کر بات کرنی چاہیے اور یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کے پس منظر میں کون سے مذموم عزائم اور مقاصد کارفرما ہیں۔ افغانستان ہمارا ایک کمزور پڑوسی ہے‘ جہاں مرکزی حکومت انتہائی کمزور ہے، اتنی کمزور کہ کہا جاتا ہے‘ اس کی رٹ کابل اور اس کے ارد گرد کے کچھ علاقوں تک ہی محدود ہے۔ افغانستان کے باقی علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں یا دوسرے وار لارڈز کے زیرِ قبضہ۔ انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ''خاد‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرواتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ افغان حکومت خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بے گناہ پاکستانی شہریوں کا خون بہانے والی اپنی ایجنسیوں کو لگام ڈالے۔ سی ٹی ڈی پنجاب اور آئی بی جیسے ادارے تحسین کے مستحق ہیں، صرف اس لیے نہیں کہ وہ دہشت گردوں کو گرفت میں لے آئے، بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے دہشت گردی کے واقعات میں میں افغانستان کے کردار کو ایک بار پھر طشت ازبام کر دیا۔ جہاں نو گیارہ حملوں کا منصوبہ بنایا گیا‘ البتہ ایسا کرنے والے غیر ملکی تھے‘ اسی طرح داتا دربار دھماکے کے لئے بھی ان حملہ آوروں نے افغانستان میں منصوبہ بندی کی۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس معاملے کو نہ صرف افغان حکومت بلکہ عالمی برادری کے سامنے بھی اٹھائے تاکہ اقوام عالم پر یہ واضح ہو سکے کہ کون اس خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔