کرپشن اور جاگیردارانہ نظام میں روا اقربا پروری ملک کی معاشی ابتری کے بنیادی اسباب ہیں، انہی کے باعث ریاست اور اس کے ادارے کھوکھلے ہو رہے ہیں۔ بیوروکریٹ اور صاحب اقتدار سیاست دان نوکریوں کی فروخت اور کک بیکس سے مال بنا کر اور تعمیراتی و فلاحی منصوبوں کی رقوم ہڑپ کر کے دہائیوں سے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ملکی خزانے سے لوٹا گیا یہ سرمایہ پاکستانی معیشت میں نہیں لگایا جاتا بلکہ نقد کی صورت بیرون ملک منتقل کر دیا جاتا ہے (جس طرح پاکستانی ماڈل ایان علی مبینہ طور پر زرداری صاحب کیلئے سوٹ کیس میں پانچ لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کرتے ہوئے دھر لی گئی تھیں) یا پھر اپنا حصہ لینے والے بینک کاروں کی مدد اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منتقل کر دیا جاتا ہے۔ زرداری حکومت کے پانچ برس کھلم کھلا اور بے شرمی سے پوری ریاستی حمایت کے ساتھ قومی خزانے کی لوٹ مار کا طویل ترین دورانیہ تھا۔
پاکستان کی معیشت اس حال کو پہنچ چکی ہے کہ اب یہ جوں کی توں نہیں چل سکتی۔ کرپشن سے نہ صرف معیشت تباہ ہوئی بلکہ اس مہلک مرض نے ریاستی اداروں مثلاً انتظامیہ، پولیس اور دیگر کو بھی اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اب ریاست مؤثر انداز میں اپنا کام کرنے کے قابل نہیں رہی۔ یہ اب قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے کیوں کہ جرائم پیشہ دہشت گرد کمزور یا غیر موجود ریاستی کنٹرول کا بہ آسانی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ غیر ملکی خفیہ اداروں کے بھیجے گئے جاسوس اور شر پسند عناصر کسی بھی ادارے میں رشوت کے بل پر سرایت کر سکتے ہیں اور عسکریت پسند تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کر کے کوئی بھی تحریک کھڑی کرنا ان کے لیے مشکل نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت قدرے سیاسی معاملہ ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ملک کے مالیاتی نظام میں ایسے سقم پائے جاتے ہیں کہ کوئی بھی ان سے پیدا ہونے والے مواقع کو استعمال کر سکتا ہے اور اس پر قابو بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ اس پر مزید یہ کہ گزشتہ کئی برسوں سے کرپشن کی کھلی چھٹی نے اقدار و اخلاقیات اور انفرادی کردار کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ خاندانی قدریں بھی اس کی زد میں ہیں اور ہماری آئندہ نسل کے دل اور دماغ بھی شعور کی پہلی منزل پر اس زہریلی فضا سے متاثر ہو رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں اسلام کی تعلیمات سے روگردانی بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے ہم کسی بے سمت منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔
ایک مدت سے ہمارے معاشرے کے درد مند محبِ وطن اہلِِ دل کا اس بات پر یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں احتساب کے اداروں کو ان کے اصل مقاصد کے بجائے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مشرف دور میں اس سلسلے میں یعنی احتساب کے حوالے سے بہتر انداز میں کوششوں کا آغاز ہوا تھا‘ لیکن بیچ راہ میں اس کا رُخ بدل دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں احتساب کو بڑا دھچکا لگا؛ تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسے جاری رہنے دیا اور منتخب وزیر اعظم کو اپنی اخلاقی حیثیت (بطور صادق و امین) مجروح ہونے کے باعث منصب سے علیحدہ ہونا پڑا۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خلاف جنگ کو اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ بنایا اور یہ گزشتہ حکومت کی طرح اپنے اراکینِ پارلیمنٹ اور سیاسی کارکنان کو بھی احتساب کے دائرے میں لے کر آئی ہے۔
کرپشن کی بیخ کنی میں نیب مرکزی کردار کا حامل ہے اور چیئرمین نیب پر اس حوالے سے بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اسی لیے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر حال ہی میں بڑا شاطرانہ وار کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص بد عنوانی کا مرتکب ہو تو اسے کس طرح دوسروں کے احتساب کا حق دیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں اور اکتوبر 2017ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، پیپلز پارٹی کے اتفاق رائے کے ساتھ تیار کی گئی فہرست میں سے اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا۔ اُس وقت پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے یہ شکایت کی تھی کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور جسٹس جاوید اقبال کے حوالے سے تحفظات کے باعث وہ ان پر ''نظر رکھیں‘‘ گے۔
اب صرف ڈیڑھ برس بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین کی حراست اور سزاؤں کے باوجود اسے نیب سے کوئی شکایت نہیں‘ جب کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ‘ دونوں جماعتیں جسٹس جاوید اقبال پر یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ ان کی کارروائیوں کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں اور کاروباری افراد کے احتساب سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ خیر، احتساب سے وہی معیشت متاثر ہو سکتی ہے جو کرپشن کے بل پر چلتی ہو! ہفتہ بھر پہلے جسٹس جاوید اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے دو بڑے صنعت کاروں ، عارف حبیب اور میاں منشا، نے نیب لاہور ریجنل آفس کے نام اپنے ایک خط میں ادارے کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں اپوزیشن کے واویلے پر کوئی تعجب نہیں۔ جب وہ الزامات کارگر ثابت نہیں ہوئے تو چیئرمین نیب کی کردار کُشی کے لیے میڈیا کی مدد سے ایک نئی لہر اٹھائی گئی۔ نیوز ون پر چلائی گئی ویڈیو میں ظاہر کیا گیا کہ چیئرمین نیب ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ مشکوک پس منظر رکھنے والی خاتون کا نام طیبہ گل بتایا جاتا ہے۔ طیبہ اور اس کا شوہر فاروق نول 39 مقدمات میں ملوث ہیں اور نیب کی کارروائی کو ذاتی انتقام کا تاثر دینے کے لیے بلیک میلنگ کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق طیبہ اور فاروق کے خلاف چھ شکایات موصول ہو چکی ہیں اور 36 افراد کی گواہیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق یہ دونوں کردار کسی بین الاقوامی گروپ کے رکن ہیں جس میں بظاہر ایف آئی اے ، پولیس، اعلیٰ تعلیمی کمیشن، اور دیگر اداروں کے اہل کار اور حکام بھی شامل ہیں۔ طیبہ اور فاروق کے خلاف 630 صفحات پر مبنی ایک ریفرنس دائر کیا جا چکا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ کے بعض رہنما چیئرمین نیب پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں؛ اگرچہ مسلم لیگ ن کے ایک حلقے نے خود کو اس مطالبے سے لا تعلق کر رکھا ہے۔ حمزہ شریف نے چیئرمین نیب سے متعلق معاملے پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے اور تحقیقات کا مرکزی نکتہ بھی ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے ساتھ ساتھ اسے بد نیتی کے ساتھ سوشل میڈیا پر عام کرنے والوں اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے والوں کو بھی دائرہ کار میں لانا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی اس مبینہ بیلک میلنگ گروہ کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی کڑی جانچ ہونی چاہیے، عین ممکن ہے کہ اپنے مذموم عزائم کے ساتھ اس گروہ کو غیر ملکی خفیہ اداروں کی ہدایات اور مالی معاونت بھی مل رہی ہوں۔ پاکستان کے گرد ہائبرڈ وار فیئر کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے، اس میں نہ صرف دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے کام جاری ہے بلکہ فیک نیوز کے طوفان کے ذریعے حقائق کو مسخ کر کے جھوٹی اور جعلی معلومات کو حقائق تسلیم کروانے کی کوششیں بھی زوروں پر ہیں۔
اس ہمہ جہت جنگ میں ملک اور ملکی قیادت کی بے توقیری کر کے معیشت اور ریاستی ڈھانچے کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ عوام کو اس صورت حال سے متعلق اعتماد میں لینا چاہیے اور ساتھ ہی جس طرح چیئرمین نیب کو جن بے بنیاد الزامات سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسی کارروائیوں کی بھی روک تھام ضروری ہے۔ ریاستی اداروں کے سربراہان کی کردار کشی کرنے والے ایسے عناصر ملک کے غدار ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں کڑی سزا دینی چاہیے۔