1971 میں قائم ہونے والا عالمی اقتصادی فورم نجی و سرکاری شعبے کی شراکت داری کے لیے تشکیل دی گئی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ یہ فورم نمایاں کاروباری، سیاسی اور دیگر سماجی رہنماؤں کو مقامی اور عالمی صنعتی ایجنڈے کی تشکیل کے لیے ایک جگہ جمع ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ عالمگیریت کی تیز ترین پیش قدمی کی وجہ سے عالمی اقتصادی فورم دنیا کی با اثر ترین بین الاقوامی اقتصادی تنظیم بن چکا ہے۔ نمایاں کمپنیوں کو سفارشات کی بنیاد پر اس کی رکنیت دی جاتی ہے۔ یہ فورم حقیقی طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہے اور مخصوص مفادات یا گروہ سے منسلک نہیں۔ فورم سات رکنی سوئس فیڈرل کونسل کے زیر نگرانی کام کرتا ہے، جس کی تشکیل وفاقی حکومت کرتی ہے اور یہ کونسل ریاست سوئٹزرلینڈ کی مشترکہ سربراہ ہے۔
جیوپولیٹیکل تغیرات نے نئے چیلنجز کو جنم دیا جو عالمی منظرنامے پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ آج غیر ریاستی عناصر اپنے ایجنڈے کی تشکیل نو کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی صلاحیت کار میں مطابقت پیدا کر لی ہے اور وہ نہ صرف قومی سطح پر نظام کے لیے چیلنج کھڑے کرسکتے ہیں بلکہ عالمی نظام بھی ان کے نشانے پر ہے۔ ڈیووس اجلاس میں عالمگیریت اور عدم مساوات کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غیظ و غضب پر خصوصی توجہ دی گئی۔ کلاز شواب کے نزدیک ''اس خطرے کے ہوتے ہوئے مختلف ممالک خود کو محدود نہیں کرسکتے۔ اس سے مقابلے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عالمگیریت کو سب کے لیے یکساں مفید بنایا جائے‘‘۔ اقوام کو مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی تعاون کے لیے قدم بڑھانا ہوگا۔ عالمی اقتصادی فورم کی غیر جانب داری نے اسے قابل اعتماد ادارہ بنایا۔ یہ کسی سیاسی، جانبدارانہ یا قومی مفاد سے وابستہ نہیں اور ''دنیا کی حالت بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔ عالمی رہنماؤں کو بین الاقوامی کارپوریشنز کو کھڑا کرنے والے اس پرانے نظام پر نظر ثانی کے لیے جمع کیا گیا جسے اب موجودہ حالات سے مطابقت پیدا کرنا ہوگی، کثیر قطبی دنیا میں ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی‘ جو مشترکہ ترقی کی جانب جاتی ہوں۔ عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین کلاز شواب نے 2017 میں کہا تھا ''ذمے دارانہ لیڈرشپ سے مراد یہ ہے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک کیا جائے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے تناظر میں ان کے حالات مزید بے یقینی کی جانب گامزن ہیں اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع پر بھی اس کا اثر پڑے گا‘‘۔
ڈیووس میں منعقد ہونے والا عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس سیکڑوں کمپنیوں کے نمائندگان، حکومتی زعما اور سماجی کارکنان کو پلیٹ فورم مہیا کرتا ہے۔ پورا سال موجودہ دنیا کو درپیش ماحولیاتی تغیرات، کرپشن، نقل مکانی جیسے دیگر اہم مسائل پر مختلف گروپ تحقیق کرتے ہیں۔ ارکان کو چھ مختلف ورکنگ گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فورم سلسلہ وار تحقیقی رپورٹس کا اجرا کرتا ہے اور عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نجی و سرکاری شعبے کا باہمی تعاون بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر 2 ہزار سے زائد افراد اس اجلاس میں حصہ لینے، شریک ہونے یا اس کی کوریج کرنے کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں۔ ڈیووس میں منعقدہ اجلاس دنیا کے نمایاں ترین سیاسی رہنماؤں، سربراہانِ مملکت، صنعتی و کاروباری قائدین، پالیسی سازوں، دانشوروں اور سکالرز، سائنسدانوں، فلاحی کام کرنے والوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو عالمی ایجنڈے کی تشکیل کے لیے ایک چھت تلے جمع کرنے کا انتہائی منفرد موقع ہوتا ہے جس میں اقتصادیات، صحت، ماحول، میڈیا سکیورٹی اور دیگر اہم ترین موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ عالمی رہنما اور کثیرملکی کمپنیوں کے سی ای اوز کا میل ملاپ ہوتا ہے اور اپنے شعبے کے معروف و ممتاز ترین ماہرین عالمی معیشت، اشیائے صرف کی قیمتوں اور ماحولیاتی امور سمیت متنوع موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کا مقصد ہے ''عالمی حالات میں بہتری‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا بھر کی قیادت کو عالمی، خطوں اور صنعت کے ایجنڈے کی تشکیل کے لیے ایک جگہ جمع کیا جائے۔ ڈیووس میں آپ کا بیانیہ نہ صرف سنا جاتا ہے بلکہ اسے سمجھا بھی جاتا ہے۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کی آواز عوامی سیشن میں بھی سنی جائے۔ مٹھی بھر بزنس مین ڈیوس میں پاکستان کی نمائندگی کا بارِ گراں نہیں سہار سکتے۔ ڈیووس پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں متعارف کروانے کے لیے ایک انتہائی اہم موقع ہے، ہمارے بڑے بزنس لیڈرز کو اس پلیٹ فورم میں شرکت کو اہمیت دینا ہوگی، کیونکہ انہوں نے جس میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہاں بھی ان کا چرچا ہونا ضروری ہے۔
عالمی اقتصادی فورم نے "Partnership Against Corruption Initiative" (PACI) کا آغاز کیا تھا۔ میں 2013 سے اس کا رکن ہوں۔ اس کے ذریعے فورم کی کرپشن کے خلاف کاوشوں کو سمت دی گئی، اس گروپ کے اجلاس میں وہ اہم ترین لوگ شریک ہوتے ہیں جو کاروبار کے فروغ کے لیے بدعنوانی سے پاک ماحول اور پالیسی سازی کے سلسلے میں کوشاں ہیں۔ اجلاس کے شرکا کرپشن سے نمٹنے کے مؤثر طریقوں اور انتظامی ڈھانچوں پر انحصار بڑھانے کے لیے میدان ہموار کرنے سے متعلق تجاویز دیتے ہیں۔ باسل انسٹی ٹیوٹ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور وینگارڈ جیسے اداروں سمیت 100 سے زائد نمایاں کمپنیاں اور ادارے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ فلور کارپوریشن کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو (پی اے سی آئی وینگارڈ کے سابق چیئرمین) ڈیوڈ سیٹون کے مطابق: وقت آ پہنچا ہے کہ کاروباری و حکومتی قیادت اور سول سوسائٹی‘ دونوں کرپشن اور رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کُن اقدامات کی حمایت کریں۔ ہمیں مل کر ایک ایسا عالمی ایجنڈا اور کثیر الجہات شراکت داری ترتیب دینا ہوگی جو ترقی کے لیے مددگار ثابت ہو اور مسابقت اور قیادت پر مکمل اعتماد کی فضا قائم کرے۔ ''کیتھم ہاؤس رولز‘‘ او ای سی ڈی کی سیکرٹری جنرل اینجل گوریا کے قابل تحسین کردار کے ذکر میں مانع نہیں۔ او ای سی ڈی کا رشوت ستانی کے خلاف کنونشن کرپشن سے مقابلے کی فضا ہموار کرنے کے لیے جامع قانونی حل فراہم کرتا ہے۔ پی اے سی آئی انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں بدعنوانی کے تدارک کے لیے حکومتوں کے ساتھ قومی و معاشرتی سطح کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم میں دیگر کے ساتھ پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ برسوں سے یہ دونوں ادارے مشترکہ طور پر ڈیووس میں پاکستان کے مثبت امیج کو فروغ دینے کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔ میرا بیٹا ضرار سہگل، ایک ڈبلیو ای ایف ینگ گلوبل لیڈر (YGL) ہے اور ڈیووس میں گروپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ دونوں گروپس مشترکہ طور پر روایتی ''پاکستان بریک فاسٹ‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تقریب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو درپیش منفی امیج کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مددگار ثابت ہوا اور اس میں انتہائی نمایاں شخصیات شریک ہوتی ہیں۔ 2018 میں اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بہت درست نشاندہی کی تھی ''آپ کے سامنے دو پاکستان ہیں۔ ایک جو سی این این دکھا ہے اور دوسرا حقیقی پاکستان‘‘۔ اس سے مراد عالمی میڈیا میں پاکستان سے متعلق منفی خبروں کو نمایاں کرنے کے چلن کی نشاندہی کرنا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان سے متعلق مثبت اور اچھی خبروں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تاثر اور حقیقت کے مابین پائی جانے والی اس خلیج کو پاٹنے کے لیے پاکستان بریک فاسٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تقریب کے مہمان اعلیٰ پاکستانی قیادت کے ساتھ بڑی دلچسپی سے تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ اس برس وزیر اعظم پاکستان اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
عالمی اقتصادی فورم کے صدر اور سابق نارویجن وزیر خارجہ برگی برندے (Borge Brende) کا حالیہ ایک روزہ دورۂ پاکستان بلا مبالغہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ عالمی اقتصادی فورم کے پاکستانی اراکین کی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر ایسے عالمی فورمز میں شرکت اور رابطوں کو اخراجات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ رواں برس فورم میں وزیر اعظم عمران خان کی عدم شرکت سے یہ پیغام ملا کہ ہماری حکومت اس فورم کی اہمیت سے واقف نہیں۔ اپنے گزشتہ کالموں میں سے ایک میں لکھا تھا ''ہمارے سرکاری سفارتی عملے اور سرکاری میڈیا مشینری کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی منفی تاثر کا ازالہ کرے۔ مگر ڈیووس بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے لیے کام کرنے کے حوالے سے مسلسل ناکامی نظر آتی ہے‘‘۔ ایسے مواقع ضائع کرنے کا رویہ تبدیل کرنے کا یہ سنہرا موقع ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے صدر کا دورہ مختصر سہی لیکن اپنی اہمیت کے اعتبار سے انتہائی غیر معمولی ہے اور یہ مستبقل میں عالمی سطح پر باہمی تعاون بڑھانے کے اعتبار سے پاکستان کے لیے چشم کشا ثابت ہو سکتا ہے۔ فورم کے صدر وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب، مشیر پٹرولیم ندیم بابر، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد، مشیر ماحولیاتی تغیرات، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، مشیر برائے انسانی وسائل ذوالفقار بخاری، سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور دیگر حکومتی ارکان سے ملاقات کریں گے۔ گزشتہ بیس برسوں میں عالمی اقتصادی فورم کے کسی صدر کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عالمی حالات پر کس طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔
مرحوم جاوید اوکھائی کے صاحب زادے اور چیئرمین مارٹن ڈو گروپ علی اوکھائی، غیر معمولی صلاحیتوں اور وژن کا حامل کھرا پاکستانی‘ ضرار اور میں صدر عالمی اقتصادی فورم کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے‘ جہاں ان سے فورم کے عالمی ایجنڈے میں پاکستانی شمولیت سے متعلق روبرو اظہار خیال کا موقع ملے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ پاکستانی حکام سے براہ راست ملاقاتیں عالمی برادری کے ساتھ معاشی، سماجی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گی۔ صدر عالمی اقتصادی فورم کو پاکستان کے مسائل کا ذاتی مشاہدہ ہوگا تو وہ ان سے متعلق اپنی رائے عالمی سطح پر بھی پیش کریں گے جو مستقبل میں پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوگی۔