بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ لیکن انفراسٹرکچر، تعمیر و ترقی اور تعلیم وغیرہ میں پس ماندہ ترین ہے؛ تاہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ یہ ذخائر بلوچستان اور پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ریکوڈک کے نام پر جو ڈرامہ رچایا گیا اس کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ صوبے میں بدانتظامی اور کرپشن، کم از کم ماضی میں، عروج پر پہنچ چکی تھی۔ گمان تو نہ جانے کہاں تک جائے لیکن ایسے کرپٹ بھی ہیں جو بڑی مہارت سے پس پردہ رہنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ (ICSID) کے ثالثی ٹربیونل نے ٹی سی سی کی جانب سے 2010 میں پاکستان کے خلاف دی گئی درخواست پر حال ہی میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان پر کم و بیش چھ ارب ڈالر ہرجانہ عاید کیا ہے۔ 2013 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ''چاغی ہل ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر‘‘ معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔
آئی سی ایس آئی ڈی کا یہ فیصلہ معاشی مسائل میں گھِرے پاکستان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس رقم کی ادائیگی کیسے ممکن ہو گی جبکہ ہرجانہ ہر صورت ادا کرنا لازم ہے۔ اس معاملے میں اپیل کی بھی گنجائش نہیں۔ ہمارے قانونی ماہرین کو کوئی راستہ تو نکالنا ہو گا۔ بصورت دیگر اس سے بھی زیادہ رقم ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ ریکوڈک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معاہدات کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ حکومتِ بلوچستان نے 2010 میں ٹی سی سی کو کان کَنی کا لائسنس جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ حالانکہ طے شدہ معاہدے میں لائسنس کا اجرا شامل تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جو معاہدہ ٹی سی سی چاہتی تھی وہ نہ صرف بلوچستان اور پاکستان کے حق میں غیر منافع بخش تھا بلکہ پاکستان کے موجودہ قوانین سے مطابقت بھی نہیں رکھتا تھا۔ بعدازاں معاہدے میں ہونے والی اضافے اور تبدیلیوں سے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے مزید بد تر ہو گیا۔ اسے پہلے ہی مرحلے پر تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آج ہم اس نقصان کی ذمے داری کے تعین کے لیے بہت واویلا سن رہے ہیں‘ لیکن لائسنس جاری نہ کرنے والی اس وقت کی حکومتِ بلوچستان کو اس کے لیے ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ نہ ہی 2013 میں پاکستانی قوانین سے متضاد ہونے کے باعث سپریم کورٹ اور افتخار چودھری چودھری صاحب کی جانب سے اس کی تنسیخ کو نقصان کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں ہی نے ملک کو خسارے کے سودے سے بچانے کی کوشش کی تھی کیونکہ اس معاہدے میں نہ صرف ایک غیر ملکی کمپنی کو دس کلومیٹر پر محیط رقبے میں ذخائر کی تلاش کا اختیار دیا جا رہا تھا‘ بلکہ ہزاروں مربع کلومیٹر زمین بھی اس کے حوالے کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ منافع میں 75 فیصد حصہ ٹی ٹی سی اور صرف 25 فیصد بلوچستان کے لیے رکھا گیا تھا‘ جبکہ اس دور دراز بے آباد علاقے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری بھی بلوچستان کے ذمے تھی۔
اگرچہ اس سطح کے کاروبار میں اخلاق یا اقدار کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن یہ معاہدہ ایک ترقی پذیر ملک کے قدرتی وسائل لوٹنے کے مترادف تھا۔ سرمایہ لگانے والی کمپنی منافع کمانے کا حق رکھتی ہے‘ لیکن ٹی ٹی سی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ یک طرفہ تھا۔ یہ مشکوک معاہدہ کرپٹ اور غیر پیشہ ورانہ نوکر شاہی اور اس فراڈ کے کچھ مشتبہ کرداروں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نظام عدل میں صرف قانون اور معاہدات کی عبارتوں پر فیصلے سنائے جاتے ہیں اور انصاف کی فراہمی کے لیے ان کی اصل روح کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک انگریزی جریدے میں مقبول احمد نے ایک تفصیلی رپورٹ دی ہے‘ جس کے مطابق ذمے داروں کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ کن لوگوں نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) قائم کی تھی۔ اسی ادارے نے 1993 میں بی ایچ پی منرلز اور امریکی کمپنی ڈیلیور کے ساتھ چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ ایگریمنٹ کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ بی ڈی اے کے چیئرمین عطا محمد جعفر 13 جولائی 1993 کو صوبائی سیکرٹریٹ میں آئے اور اس معاہدے پر دستخط کے لیے چیف سیکرٹری سے اصرار کیا۔ اس فائل میں جوائنٹ وینچر کے معاہدے کا ڈرافٹ تھا۔ اس کے صرف 16 دن بعد 29 جولائی کو معاہدے پر دستخط کر دیے گئے جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری نے ڈرافٹ کے جائزے کے لیے اس پر کارروائی روک لی تھی۔ دیگر تقاضے پورے نہ ہونے کے ساتھ قانون، خزانہ اور منصوبہ بندی کے صوبائی محکموں سے بھی اس کی مطلوبہ جانچ پڑتال نہیں کروائی گئی تھی۔ اس وقت بی ایچ پی منرلز پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہوئی تھی جبکہ یہ معاہدے کے لیے ضروری تھا۔
سوال یہ ہے کہ کس نے ٹی سی سی میںبی ایچ پی بلیٹن کو 75 فیصد حصص رکھنے کی رعایت دی اور منافع کا تعین کیا گیا جبکہ ابھی ایک ٹن کچ دھات بھی نہیں نکالی گئی تھی؟ چلّی اور کینیڈا والے اس خطرناک علاقے میں اپنی جان اور سرمایہ کاری داؤ پر لگانے کے لیے کیسے راضی ہو گئے؟ اور سب سے اہم سوال‘ جو کسی معمے سے کم نہیں‘ یہ ہے کہ یہاں سے دھاتیں نکالنے کے لیے پلانٹ پاکستان میں لگانے کے بجائے حاصل ہونے والی خام کچ دھات بیرون ملک بھیجنے کی کیا وجہ تھی؟
مقبول احمد نے 1993 کے بعد ہونے والی کئی اور فریب کاریوں کی تفصیلات جمع کی ہیں‘ جن کے باعث بلوچستان کے حالات بدترین ہوتے چلے گئے۔ لیکن جب تک اس کے اصل ذمے داروں کا تعین نہیں ہو گا نہ ہی ہرجانے کی رقم کی ادائیگی کا مسئلہ حل ہو گا، نہ ہی کوئی اور راستہ تلاش کیا جا سکے گا۔
10 جولائی 2014 کو ایک مضمون ''ایک اور ریکوڈک سکینڈل؟‘‘ میں لکھا گیا ''متنازعہ طور پر بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ کے چیئرمین مقرر ہونے والے (چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے) ارسلان افتخار کا پہلا (اور ممکنہ طور پر آخری) اقدام ریکوڈک کی سونے کی کانوں کے اربوں ڈالر کے ٹھیکے کا اعلان تھا۔ عالمی سطح پر کھولے گئے ٹینڈر میں یہ ٹھیکہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو دیا جانا تھا۔ حکومتِ بلوچستان کے سرکاری ترجمان جان بلیدی نے تسلیم کیا ''حکومتِ بلوچستان وفاقی حکومت کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ٹی سی سی کے ساتھ معاملہ عدالت سے باہر نمٹانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے ہرجانہ عائد ہونے کی صورت میں اتنا بڑا مالی نقصان برداشت کرنے کے متحمل نہیں‘‘۔ جان بلیدی نے یہ بھی انکشاف کیا ''میرے خیال میں ٹی سی سی کو لائسنس کی بولی میں شرکت سے روکنا بلا جواز تھا‘‘۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس نے ''کنسلٹنسی آفس‘‘ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ پہلی مرتبہ اس معاملے میں قانونی سقم اس وقت سامنے آئے جب اس معاہدے کو ملکی قوانین سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا گیا۔ یہ تنازعہ سامنے آنے کے بعد شدید تنقید ہوئی اور 12 دن کے اندر ارسلان افتخار عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ جمہوریت کا حسن بھی اس وقت نکھر کر سامنے آیا جب نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو اور بلوچستان کے دیانت دار وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے تسلیم کیا کہ والد کی سفارش پر ارسلان افتخار کی تقرری بہت بڑی غلطی تھی۔ ارسلان افتخار اس بات پر مُصر رہے کہ اس تقرری سے ان کے والد کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ارسلان افتخار بیرونی سرمایہ کاری لانے کا نہ تو کوئی تجربہ رکھتے تھے اور نہ ہی مہارت۔ اس کے باوجود ان کی تقرری کا دفاع کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما مشاہداللہ خان نے اس راز کا پردہ چاک کر دیا اور اس تقرری کو ''قومی خدمات کے عوض‘‘ افتخار چوہدری کے لیے ''انعام‘‘ قرار دیا۔ قوم یا ن لیگ کے لیے اپنے والد کو تنقید کی زد میں لانے والے ارسلان افتخار اجنبی نہیں تھے۔ سابق چیف جسٹس پر اپنے اسی بیٹے کو کم نمبر ہونے کے باوجود میڈیکل کالج میں داخلہ دلوانے اور سرکاری نوکری میں خلاف معمول تیزی کے ساتھ ترقی دلوانے کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ ارسلان نے میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر ٹیلی کمیونیکیشن کا کاروبار شروع کیا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کاروبار بھی پھل پھول رہا ہے۔ اتفاق کہیں یا کچھ اور بظاہر وفاق کی جانب سے ارسلان افتخار کی تقرری ریکوڈک سے جڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟‘‘ )
جو ہونا تھا وہ ہوا، سوچنا چاہیے کہ اس سے سبق سیکھ کر مستقبل کا کیا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلے تو طے کر لینا چاہیے کہ حالیہ فیصلے کے بعد اس معاہدے پر عمل درآمد بے سود ہو گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ٹی سی سی کو مذاکرات کی پیشکش کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ معاہدے میں بنیادی نوعیت کی نظرِ ثانی کی جائے۔ لیکن اس میں ٹی سی سی کا مفاد نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کرنا چاہتے تو بہت پہلے عدالت سے باہر معاملہ طے کرنے کی کاوشوں کا کوئی نتیجہ برآمد ہو جاتا۔ ٹی سی سی کو پہلے ہی حالات اپنے حق میں سازگار ہونے کی توقع تھی۔ اب پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ کوئی متبادل سرمایہ کار تلاش کیا جائے جس کے ساتھ بہتر شرائط پر معاہدہ ہو اور اس میں ہرجانے کی ادائیگی کی گنجائش پیدا کی جائے۔ توقع ہے کہ حکومت پہلے ہی ان خطوط پر سوچ رہی ہو گی اور اگر ایسا نہیں تو اس جانب بڑھنے کا یہی موزوں ترین وقت ہے۔ کان کَنی کے شعبے میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے امیدوار موجود ہیں جو منافع کمانا چاہتے ہیں؛ تاہم آمدن کی تقسیم میں توازن ہونا چاہیے۔ چین پہلے بلوچستان کی ترقی میں دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے۔ روس سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ کئی اور آپشن بھی ہو سکتے ہیں لیکن ریکوڈک کسی دوسرے کاروباری معاہدے سے مختلف نوعیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے وہی امیدوار موزوں ترین ہو گا جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھی دلچسپی رکھتا ہو۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم سبق بھی ہے۔ ایسے اہم امور میں شامل بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور ماہرین کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ عہدوں اور مناصب پر مطلوبہ مہارت اور تجربے کی بنیاد پر تقرر ہونا چاہیے یعنی فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، سفارش کی بنیاد پر نہیں۔ اس معاملے میں میرٹ کو نظر انداز کرنا بنیادی غلطی تھی جسے درست کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں متعلقہ بیوروکریٹس کو کان کَنی کی مہارت اور خصوصی تعلیم کی فراہمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ اس بدنما معاہدے سے ہمیں ہرجانے کی رقم ادا کرنے کے راستے تلاش کرنے کا سبق بھی سیکھنا ہی ہو گا۔ امید ہے کہ ریکوڈک میں ہونے والے اس نقصان کے ازالے پر غوروفکر کے لیے قائم کردہ کمیشن یہ سبق نظر انداز نہیں کرے گا۔