کتاب آج بھی آمادۂ ارتقاء ہے!

چند روز قبل کا واقعہ ہے میں نے اپنے چھوٹے بیٹے آدم کو مطالعہ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے ٹیلیویژن دیکھنے سے پرہیز کی تلقین کرتے ہوئے کہا، ’’کتاب پڑھنے کے لیے تمہیں وقت کب ملتا ہوگا؟‘‘ بیٹے نے کہا ’’کتابیں پڑھنے کا فائدہ پاپا؟‘‘ ’’اس سے آپ کا ذہن وسیع ہوتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’وہی ساری چیزیں ٹی وی پر بھی ہیں، چنانچہ ذہن ٹی وی دیکھنے سے بھی وسیع ہوتا ہے۔‘‘ آدم کا جواب تھا۔ میں کہتا ہوں ’’کتابوں میں تمہیں بے شمار سائنسی معلومات اور ان کا حال احوال ملے گا۔‘‘ بیٹا کہتا ہے ’’سائنس ٹی وی پر بھی ہے!‘‘ میں پھر کہتا ہوں۔’’کتابوں میں ادب ہے، سیاست ہے، صحافت ہے، ثقافت اور تہذیبی سرمایہ ہے۔‘‘ آدم جواب دیتا ہے ’’ایسی بہت سی چیزیں اور پروگرام جن کا تعلق ادب، صحافت، ثقافت، سیاست، تفریح اور تہذیب و تمدن سے ہے ٹیلیویژن پر بھی موجود ہیں۔‘‘ بیٹے کو سمجھاتے ہوئے جب میں تنگ آجاتا ہوں تو کہتا ہوں۔’’ اس کے باوجود تمہیں کتابیں پڑھنی ہونگی‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ بیٹے نے پوچھا ’’اس لیے کہ ہم کتابیں لکھتے ہیں‘‘ باپ کی زبانی یہ دلیل سنتے ہی بیٹا کہتا ہے۔ ’’جب ہم کتابیں پڑھتے نہیں تو آپ کتابیں لکھتے ہی کیوں ہیں؟‘‘ مطالعہ کا ذوق و شوق ختم ہونے کی حقیقت پر اس سے بڑا تبصرہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا بیٹا کوئی بڑا لیڈر، دولت مند، سیاستدان، صنعت کار، ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، پروفیسر یا فنکار بن جائے بلکہ میں اسے بے لاگ، بے خوف، بااعتماد، روشن خیال، روشن ضمیر اور متوازن شخصیت کا مالک بنانا چاہتا ہوں کہ وہ بڑا ہو کر اس وسیع حقائق کی دنیا میںزندگی سے نبرد آزما ہو اور وہ اپنا مقام آپ پیدا کرے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان مقاصد کو پانے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ بے حد ضروری۔ اب رہ گئی بات اختلاف کی، تو مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی سے فکری اورنظری اختلاف ہو تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اختلاف فطری اورطبعی ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کی فکر و نظر کا مکمل طور پر پابند ہو، اختلاف زندہ ضمیری کی بھی علامت ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں پائے جانے والے نئی اور پرانی نسل کے اختلافات کو میں ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں کررہا لیکن الیکٹرانک میڈیا کا دھماکہ خیز انقلاب اگر سب سے زیادہ کسی چیز پر اثر انداز ہوا ہے تو وہ ہے پرنٹ میڈیا جس سے کتابی دنیا میں سانس لینے والے عناصر بہت بے چین ہوئے، مگر علوم و فنون کی امکانی توسیع نے بے چین روحوں کو کافی حد تک سنبھال لیا ہے۔ گلوبلائزشن تحریک کی اہمیت اور حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن کتاب آج بھی آمادۂ ارتقا ہے، کتاب کی اہمیت کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ الیکٹرانک میڈیا تو آج کی پیداوار ہے لیکن عقل کی مدد سے انسان نے اس دور میں بھی بہت سی معلومات حاصل کرلی تھیں جب وہ پتھر کے زمانے میں رہا کرتا تھا۔ اس وقت اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ وہ اپنی معلومات، فکر اور علوم و فنون (جیسے بھی تھے )کو محفوظ رکھ سکے اور دوسروں تک منتقل کرسکے جس کا وہ بے حد خواہش مند تھا کہ انسان اپنی خوشیوں اور غموں میں دوسرے انسانوں کو شریک کرکے طمانیت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ انسان نے لکھنے کی ابتدا کی۔ اس سے قبل تک ابلاغ کا عمل زبانی، آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ہوتا تھا۔ تحریر کی ایجاد سے پہلے انسان کو یہ بات یاد رکھنی پڑتی تھی۔ علم سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں کو پہنچتا تھا۔ بہت سا حصہ ضائع ہوجاتا تھا۔ تحریر سے لفظ اور علم کی عمر میں اضافہ ہوا۔ زیادہ لوگ اس میں شریک ہوئے اور انہوں نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اس کے ذخیرے میں اضافہ بھی کیا۔ لفظ حقیقت اور صداقت کے اظہار کیلئے تھا ،اس لیے مقدس ہوا۔ لکھے ہوئے لفظ کی اور اس کی وجہ سے قلم اور کاغذ کی تقدیس ہوئی۔ بولا ہوا لفظ آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ہوا تو علم و دانش کے خزانے محفوظ ہوگئے ۔جو کچھ نہ لکھا جا سکا وہ بالآخر ضائع ہوگیا۔ پہلے کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں اور علم سے صرف کچھ لوگوں کے ذہن ہی سیراب ہوتے تھے (لکھنے کی ابتدا کب ،کیسے اور کہاں سے ہوئی ؟یہ ایک الگ موضوع ہے) ۔علم حاصل کرنے کیلئے دور دور کا سفر کرنا پڑتا تھا جہاں کتب خانے ہوں اور ان کا درس دینے والے عالم ہوں۔ چھاپے خانے کی ایجاد کے بعد علم کے پھیلائو میں وسعت آئی۔ (یہ الگ بات ہے کہ چھاپے کے استعمال کے خلاف فتوئوں کا سامنا بھی کرنا پڑا) کیونکہ وہ کتابیں جو نادرتھیں اور وہ کتابیں جو مفید تھیں آسانی سے دستیاب اور فراہم ہوئیں۔ میرے حساب سے سماجی، سیاسی، ثقافتی اور طبعی علوم کی کتابوں کی اہمیت ادبی کتابوں سے کم نہیں کہ اگر ادب زندگی کا آئینہ ہے تو زندگی سماج سے جُڑی ہوئی ہے اور سماجی ارتقاء اور ذہنِ انسانی کی نشوو نما طبعی، انسانی علوم اور ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے ایک لمحہ کو بھی انکار نہیں لیکن کتب بینی انسانی زندگی کو صحیح رُخ پر ڈھالنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے اور خیالات کو سنوارنے میں کتابیں ہماری بہترین رفیق ہیں۔ میں خود زندگی کو کتابوں کے آئینہ میں دیکھتا آیا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آج برا بھلا جیسا بھی ہوں اپنے بچوں کے قابلِ فخر ہُوں (یہ میں نہیں کہتا یورپ میں پیدا ہونے اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے میرے چاروں بچوں کا کہنا ہے) بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ آخری بات یہ کہ یورپ میں جب سے بچوں کے فکشن کا ایک مقبول سلسلہ ہیری پورٹر منظر عام پر آیا ہے اور جسے ’’ولیم پورٹر سیریز‘‘ کا نام دیا گیا ہے اس کروڑوں کی تعداد میں چھپنے والی سیریز نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سردست کتاب کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔اس مقبول ترین سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ نے حال ہی میں اپنی کتابوں کی آمدنی میں سے برطانوی لیبر پارٹی کو ایک ملین پائونڈ کا عطیہ دیا ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ وہ بچوں میں غربت ختم کرنے کی لیبر پارٹی کی کوششوں سے متاثر ہوئی ہے۔ امیر ترین افراد کی فہرست کے مطابق جے کے رولنگ پانچ سو ساٹھ ملین پائونڈ کی مالک ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں