چین جو چند برس قبل تک بھاری مقدار میں امداد لینے والا ملک تھا آج ترقیاتی قرضے اور عطیات دینے والا دنیا کا بڑا ملک بن گیا ہے۔ اس نے گزشتہ دو سال میں ترقی پذیر ملکوں اور کمپنیوں کو عالمی بینک سے بھی زیادہ امداد فراہم کی ہے اور اب چین ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں وہ با آسانی دوسرے ملکوں میں اپنی موجودگی کا احساس کروا سکتا ہے۔ چین آج کل اپنی اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر جو کچھ کر رہا ہے وہ اس سے الگ یا مختلف نہیں ہے جو دوسرے ترقی یافتہ ملک ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ چین نے حال ہی میں ترقی پذیر ملکوں اور عالمی کمپنیوں کو 110 ارب ڈالر کے قرضے دیئے ہیں جبکہ عالمی بینک نے دنیا کو مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر کی رقم دی ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا کے مطابق 2012ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران چین کے زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ سال کی نسبت 18.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر 2648 ارب کی سطح پر تھے،اورتین ماہ کے دوران ان میں 199 ارب ڈالر کا اضافہ ہو کر چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 2847 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ زرمبادلہ رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔ میرے حساب سے اقتصادیات کے بڑھتے ہوئے دیوقامت حجم کے ساتھ چین تیزی کے ساتھ عسکری استعداد کو بڑھا رہا ہے تاکہ علاقے اور علاقے سے باہر اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کر سکے۔میرا خیال ہے کہ دنیا میں کہیں بھی حرکت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھنے والی عسکری طاقت کے قیام کا کام چین میں بہت پہلے شروع ہو چکا تھا ،اب اس میں تیزی کے ساتھ جدیدیت لائی جا رہی ہے تاکہ اسے نیٹو کے ہم پلّہ بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے بعض مغربی عسکری تجزیہ نگاروں نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ چائنا پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کی تیزی سے بڑھتی قوت اسے بڑے ’’عالمی عسکری ایکشن‘‘ کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ اس خوف میں اس وقت اضافہ ہوا جب مارچ 2010ء میں چین کے سرکاری میڈیا میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ چینی وزیراعظم نے چینی فوج کو ’’علاقے میں ہائی ٹیک جنگ‘‘ کو جیتنے کے لیے صلاحیتیں بڑھانے کی ہدایت کی۔ ستمبر 2009ء کو لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے عسکری قیادت نے شرکت کی‘ اس حوالے سے آرٹلری اور اسلحہ پر نظر رکھنے والے ادارے نے چین کے مستقبل کی جنگی پلاننگ پر ایک تجزیہ شائع کیا جسے ہالینڈ کے ایک جریدہ نے اشاعت میں شامل کیا ۔جریدہ لکھتا ہے۔ ’’چین ایک متحرک اور تیزی کے ساتھ نقل و حرکت کرنے والی فوج تیار کر رہا ہے جو دنیا میں کہیں بھی کارروائی کے قابل ہوگی اور صلاحیت میں کسی بھی طور مغربی فوجوں کے ہم پلہ کہلائی جا سکے گی۔ اس مقصد کے لیے روس سے فضا میں ہی ایندھن لینے والے طیارے حاصل کیے گئے ہیں جو چینی فوج کی جنگی صلاحیتوں کو دو گنا کر دیں گے‘‘۔ ان تمام حالات کا اگر جائزہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ چین دراصل مغربی یونی پولر دنیا کے مقابل آ چکا ہے‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چین اور روس کے درمیان تیزی کے ساتھ اسٹریٹیجک تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت 6 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی جبکہ چین کی معیشت 10 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ امریکہ کے مالیاتی نظام میں چین کی سرمایہ کاری ایک ہزار ارب ڈالر کو پار کر گئی ہے اور امریکہ چین کے ساتھ اپنی تجارت میں ڈھائی سو ارب سالانہ خسارے تک جا پہنچا ہے۔ ہالینڈ کے ایک اخبار نے چینی روزنامہ ’’دی ڈیلی چائنا‘‘ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت روس نے چین کو 34 ٹرانسپورٹ طیارے اور چار فضائی ٹینکر مہیا کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روس چین کو اس کے جوہری توانائی کے منصوبوں کو مزید توسیع دینے کے لیے نیوکلیئر پاور انڈسٹری کے شعبے میں تکنیکی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ مئی 2008ء میں روس اور چین کے درمیان 1.5 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت روس چین کو نہ صرف یورینیم مہیا کر رہا ہے بلکہ دو نئے ایٹمی ری ایکٹر بھی تعمیر کر کے دے گا۔ ادھر چین کے جوہری سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جس سے ملک کے جوہری پروگرام کو تین ہزار سال تک یورینیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ چین کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبر نشر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جوہری ماہرین نے استعمال شدہ یورینیم کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے ۔میری معلومات کے مطابق چین کے موجودہ یورینیم کے ذخائر صرف اگلے پچاس سال تک چل سکیں گے مگر استعمال شدہ یورینیم کو دوبارہ استعمال کرنے کی خبر چین کے لیے انتہائی خوش کن ہے۔ جبکہ برطانیہ‘ فرانس اور انڈیا کے پاس پہلے ہی سے یہ ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن چین کے لیے یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ چین کوئلے کی درآمد پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ چین پاکستان کا اچھا دوست ہے‘ چینی سرمایہ کار پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتے ہیں مگر جہاں وہ پاکستانی بیوروکریسی کے رویہ سے ازحد شاکی ہیں وہاں پاکستان کی امن و امان کی خراب صورت حال سے بھی متاثر ہیں۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ چین کی یہ خواہش ہے کہ اس کے لیے پٹرول جو مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے آتا ہے وہ پاکستان کے راستے سے آئے‘ اگر صوبہ سرحد‘ فاٹا اور طالبان کے زیر تسلط علاقے میں بدامنی کا خاتمہ ہو جائے اور ان علاقوں پر حکومت پاکستان کا مکمل کنٹرول ہو جائے اور چین کے پٹرول کے لیے پاکستانی راستہ کھل جائے تو وہ پٹرول جو اب ایک ماہ میں چین پہنچتا ہے‘ محض ایک ہفتے میں پہنچنے لگے گا۔ چین کا صوبہ ژی جیانگ ایک ایسا صوبہ ہے جو پاکستان کے قریب ہے اور پاکستان سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے یہ ایک اہم مقام ہے۔ پاکستان کی لگ بھگ 64 کمپنیوں نے تجارتی مراکز یہاں قائم کر رکھے ہیں کہ پاکستان کے انفراسٹرکچر شعبہ میں 110 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے چین کو پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعہ اپنا مال بیرونی ممالک کو برآمد کرنے کی پیشکش کر رکھی ہے کیونکہ چینی اشیا اپنے ملک کی کسی بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے تین ہفتے لگ جاتے ہیں جبکہ اس سے کم وقت میں چینی اشیاء پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے بیرونی ممالک کو پہنچائی جا سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی بندرگاہیں چینی اشیا کی بیرونی تجارت کے لیے خود چین کی بندرگاہوں سے زیادہ موزوں اور کارآمد ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری (جنہوں نے چین کے سترہ دورے کر ر کھے ہیں) کہتے ہیں کہ ان کے بار بار چین آنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے تجربات اور سہولتوں سے فوائد حاصل کریں۔ پاکستانی یہ بات کہنا کبھی نہیں بھولتے کہ چین کی طاقت پاکستان کی طاقت ہے اور پاکستان کی طاقت چین کی طاقت ہے اور یہ کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ دونوں جگہ پر آکسیجن نہیں ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن ضروری ہے کیا میرا یہ یقین غلط ہے…؟