روسی صدر نے اے کے 47اسالٹ رائفل کے موجد میخائل کلاشن کوف کو ان کی 90ویں سالگرہ پر ’’روس کا ہیرو‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ صدر نے کہا: ’’اس طرح کے غیر معمولی واقعات ہرروز رونما نہیں ہوتے‘‘۔ انہوں نے میخائل کلاشنکوف کی ایجاد کو بے حد سراہتے ہوئے کہا کہ کلاشنکوف نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بیٹھا دی ہے‘ دنیا کے ہر کونے میں اس رائفل کی آواز سنی جاتی ہے اور اس کی گونج پر روس جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ’’کلاشنکوف‘‘ دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے روسی الفاظ میں سے ایک ہے۔ ادھر اے کے 47 کے موجد اپنی سالگرہ کے موقع پر بعض باتوں پر افسوس ظاہر کرنے سے نہیں چوکے۔ ایک ٹیلی ویژن رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ کلاشنکوف نے اپنی سالگرہ کی تقریب میں احباب سے کہا: طویل عمر کی بظاہر کوئی معنویت نہیں، ابھی مجھ میں زندگی کی حرارت باقی ہے تاہم یہ ایک اہم دن ہے اور اس موقع پر جشن کا اہتمام ضروری ہے۔ اس غیرمعمولی شخص نے اپنی سالگرہ کی تقریب میں جوٹائی باندھ رکھی تھی اس پر اے کے 47 کی شکل کی ٹائی پن لگی تھی۔ دنیا کو دہشت زدہ کرکے رکھ دینے والی اس ایجاد کے موجد نے ماسکو سے 1300کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع اپنے آبائی شہر اژیوسک میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی ایجاد کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ دوران گفتگو انہوں نے اپنی حب الوطنی کے گیت گائے اور امن کی توقع کی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آج جب دنیا میں ایک شے دہشت گردی کی علامت بن چکی ہے‘ اسی شے کا موجد دنیا میں امن کا خواب دیکھ رہا ہے۔ میں بات کررہا ہوں اے کے 47کلاشنکوف رائفل کے موجد میخائل کلاشنکوف کی (جسے جمیل الدین عالی کلاش نکوف کہتے ہیں) اس رائفل کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اپنا نام جڑ جانے پر فخر کرنے والے شخص نے آرزو کی ہے کہ ’’میں دنیا چھوڑ کر جانے سے پہلے چاروں طرف امن دیکھنا چاہتا ہوں۔ میری آرزو اور تمنا ہے کہ دنیا میں قتل وغارت اور جنگ بند ہوجائے اور سیاستدان اپنے مسائل بات چیت اور مکالمے سے حل کرنا سیکھ لیں۔‘‘ دہشت گردوں کے لیے آج کے سب سے بڑے کارآمد ہتھیار کے موجد نے اے کے 47رائفل بنانے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’میں نہیں جانتا تھا کہ یہ رائفل ایک روز تشدد پھیلانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ میں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ملک کے فوجیوں کے لیے یہ رائفل بنائی تھی تاکہ ان کے پاس ایک نیا اور قابل اعتماد ہتھیار ہو‘۔ روسی فوج میں کمانڈر رہ چکے میخائل نے ان الزامات کی تردید کی کہ وہ یا ان کی رائفل دنیا میں لڑائیوں کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف رائفل جنگ کا سبب نہیں بن سکتی‘ آج کل دنیا میں بے شمار ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں اس لیے کلاشنکوف کو کسی جنگ کے ساتھ منسلک یا منسوب کرکے دیکھنا غلطی ہے۔ میرے حساب سے میخائل کلاشنکوف اپنی رائفل کے بارے میں خواہ کچھ بھی صفائی دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت کی علامت رائفل اپنی ساخت اور تکنیکی صلاحیت کی وجہ سے آج دہشت گردوں، انتہا پسندوں، عسکریت پسندوں، فدائیوں اور قاتلوں کا من پسند ہتھیار بن چکی ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں تو یہ گھڑیوں، شیونگ بلیڈ، فونٹین پین اور چھریوں سے بھی زیادہ استعمال ہورہی ہے۔ پانی‘ مٹی‘ ریت اور ہوا کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سائز کی وجہ سے اس کی سمگلنگ بھی آسان ہے۔ ہتھیاروں کی ایک کمپنی کے مطابق اے کے 47 دنیا کا سب سے اہم اورسب سے زیادہ استعمال میں آنے والا ہتھیار ہے۔ دنیا میں اب تک 25کروڑ سے زائد اے کے 47فروخت ہوچکی ہیں۔ اس سوال پر کہ افریقہ اور ایشیا کے کئی دہشت پسند گروپوں نے اپنے گروہ میں شامل بچوں کے ہاتھوں میں یہ خطرناک ہتھیار دے رکھا ہے‘ ناراض میخائل نے کہا کہ ’’انہیں اس بارے میں علم نہیں‘ وہ اس کے بارے میں قطعی نہیں جانتے‘ اس کے باوجود اگر ایسا ہے تو یہ ان کا قصور نہیں کیونکہ انہوں نے بچوں کے ہاتھ میں رائفل نہیں تھمائی‘ شاید غربت نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان رائفلوں کی فروخت سے جہاں سمگلروں ، ہتھیار بنانے والی کمپنیوں اور دہشت گردوں کو مال سپلائی کرنے والے اسلحہ کے ڈیلروں نے کروڑوں ڈالر کمائے ہیں وہاں میخائل صرف 593ڈالر کی سرکاری پنشن پر گزارہ کررہے ہیں۔ میخائل کلاشنکوف کو خود اس رائفل کی ایجاد سے ایک پیسہ نہیں ملا کہ سابق سوویت یونین میں موجدوں کو اپنی دریافت اور ایجاد کو عوام کے نام پیٹنٹ کروانا پڑتا تھا‘ ان پر ان کا کوئی ذاتی حق نہیں ہوتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میخائل پیسے کو زندگی کی سب سے اہم چیز نہیں مانتے۔ ایک سوشلسٹ کی طرح ان کی نظر میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں، وہ امن کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان کے خیال میں دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے جنگ کی تمنا ہو۔ وہ لوگ جو جنگ کے مضمرات اور خوفناک حالات سے واقف ہیں وہ دل ہی دل میں جنگ کے خطرناک نتائج سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ کلاشنکوف کا موجد کہتا ہے: ’’یقین جانیے‘ اگر دنیا اس کوشش میں لگ جائے تو ہتھیاروں پر برباد ہونے والی ساری دولت انسانوں کے بہتر کاموں پر خرچ ہوگی اور لوگ راحت وسکون‘ امن وشانتی کی پرلطف زندگی جی سکیں گے اور اس کے نتیجہ میں وہ دنیا وجود میں آئے گی جس کے لیے انسان کو بنایا گیا ہے۔ نوے برس کے اس بوڑھے کو جو سائبیریا کے ایک گائوں میں پیدا ہوا‘ اپنی ایجاد پر تھوڑا سا پچھتاوا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ابھی تک ایسی کوئی گن ایجاد نہیں ہوئی جو صرف ایک سمت میں چلتی ہو۔ یادرہے کہ اس وقت لگ بھگ 87ملکوں میں یہ رائفل قانونی طورپر استعمال ہورہی ہے۔ کاش! جمہوریت کے پاس بھی کوئی ’’کلاشنکوف‘‘ ہوتی!