فرانس کے صدر فرانسیوز ہالیندے نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر یورپ میں جلد ہی بڑی تبدیلی نہ آئی تو مؤرخ کو دنیا کی تاریخ یورپ کے بغیر ہی لکھنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یورپ متحد رہتا ہے تو تبھی وہ طاقتور رہے گا۔ اگر فرانس اور جرمنی اکھڑے اکھڑے اور ا لگ الگ رہے تو یورپ بھی کمزور رہے گا۔ دنیا یورپ کے لیے انتظار نہیں کرے گی۔ یورپی یونین کی مشترکہ کرنسی یورو کو جب سے بحران کا سامنا ہواہے صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور وہ بھی بڑی تیزی سے۔ جرمنی اور ہالینڈ کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر یورپی یونین کے تمام ارکان اسی طرح سے اپنا طرزِ عمل، طریقِ کار اور رجحان رکھتے جیسا کہ جرمنی کا ہے تو یورو کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یورپ میں آئرلینڈ، یونان اور پرتگال کی معیشتوں کی تو یورو زون نے مدد کی ہے لیکن اب ان کے سامنے بڑا سوال بلکہ سب سے بڑا چیلنج اربوں یورو کے قرض میں ڈوبی معیشتوں یونان اور اسپین کو بچانے کا ہے۔ قرض میںڈوبے یورو زون کی معیشتوں میں ڈسپلن لانے اور یورو کو استحکام دینے کے لیے فرانس کے صدر ہالیندے مختلف ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ ایک بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ فرانس اپنی خود مختاری کو نہیں چھوڑے گا اور اگر یورو زون کی معیشتیں متحد ہو کر نہیں چلتیں تو یورو کا وجود خطرے میں رہے گا اور فرانس اس لیے بھی چلاّ رہا ہے کہ دنیا میں مستقبل میں یورپ کی آواز سنی جائے۔ اگرچہ یورپی یونین کو آج کل کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے لیکن سردست رکن ممالک کی تمام تر توجہ اپنی کرنسی یورو پر مرکوز ہے۔ یورو گزشتہ سال سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن اب کہیں جا کر یورپ کے یورو بحران کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے دنیا کے امیر اور مضبوط اقتصادیات کے حامل ممالک کے مرکزی بنکوں کی جانب سے اس بحران کے بوجھ کو تقسیم کرنے کے احساس سے امید کی ایک کرن پھوٹی ہے۔ اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں کاروباری حلقے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور اربوں ڈالر کے کاروباری سودوں کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ جرمنی کے بازارِ حصص میں پانچ فیصد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کی سطح کے مسئلوں میں جرمنی کا کردار انتہائی پراعتماد ہے۔ کئی دہائیوں تک یورپ کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں۔ تب ایسے یورپ کی خواہش نہیں کی جارہی تھی جس پر جرمنی کی چھاپ ہو بلکہ ایک ایسے جرمنی کے لیے کوششیں کی جارہی تھیں جو یورپ کا حصہ ہو۔ جرمنی کی مخصوص تاریخ اور جنگ عظیم دوم کی وجہ سے ہر لمحے یہ خیال کیاجاتا رہا کہ کسی بھی موڑ پر سامراجیت کا شائبہ تک نہ ہو۔ جرمنی کے قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا کہ یورپ کی ’’روح‘‘متاثر نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ہالینڈ میں رہتے ہوئے بھی مجھے ایسے محسوس ہوتا رہا کہ کئی دہائیوں تک یورپ اور یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں۔ بہرحال اب جرمن عوام میں یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ جرمنی کو ان ممالک کی مدد کرنا پڑ رہی ہے‘ جو اپنے مالی معاملات حل نہیں کرسکتے اور جن کی گرفت سے یہ معاملات باہر ہوچکے ہیں۔ ادھر یورپی یونین نے ’’مالی‘‘ معاملات کے حل کے لیے چین کو بھی درخواست دے دی ہے۔ یورپی قائدین نے چین سے مطالبہ یا درخواست (جو بھی سمجھ لیں) کی ہے کہ وہ امدادی فنڈ میں سرمایہ کاری کرے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے صدر کرسٹن لاگارڈے نے وارننگ دی ہے کہ دنیا معاشی بحران کے دہانہ پر پہنچ چکی ہے۔ ان کی یہ وارننگ ایشیائی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ایشیا ان مسائل سے مستثیٰ نہیں‘ جن سے آج یورو زون دوچار ہے۔ صدر لاگارڈے نے چینی سنٹرل بنک کے گورنر اور اعلیٰ عہدیداروں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یورو زون کی حالتِ زار کا نوحہ کہا اور انہیں یہ دھمکی نما وارننگ بھی دے ڈالی کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کوشش نہیں کریں گے تو پوری دنیا معاشی بحران کی دلدل میں پھنس جائے گی۔ معاشی کساد بازاری پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گئی۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ بیرونی زرمبادلہ رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 3.8کھرب ڈالر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ یورو زون کو مالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے ’’بیل آئوٹ‘‘ کے فنڈ میں سرمایہ لگائے۔ چین کو بتایا گیا ہے کہ ہم تمام کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ ڈوبے تو سب ڈوبیں گے اور ابھرے تو سب ابھریں گے۔ لاگارڈے نے روس کا دورہ کر کے اسے بھی خبردار کیا ہے کہ یورپی معاشی بحران سے اس کی چشم پوشی خطرناک ہوگی۔ امریکہ اور یورپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ چین نے اپنی کرنسی کی قدر کو جان بوجھ کر کم سطح پر رکھا ہے تاکہ اپنے برآمد کنندگان کو غیر قانونی فائدہ پہنچایا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ امریکہ اور یورپ، چین کی مصنوعات اور اشیا کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ مجھے یورپ کے خستہ مالی حالات دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہوچکا ہے۔ میرے ساتھ دنیا کے 45ممالک کے لگ بھگ ایک چوتھائی افراد بھی اسی بات پر یقین محکم رکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نقائص سے پُر ہے۔ یہ بات تازہ پول میں سامنے آئی ہے۔ گلوب سکین نے اس سلسلے میں ایک سروے کا اہتمام کیا۔ 36ہزار افراد میں صرف 9فیصد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام صحیح رہا اور مزید کسی بڑے ضابطے کی ضرورت نہیں جبکہ 56 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بری طرح ناکام ہے اور نئے معاشی نظام کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک شرمناک، المناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے علاوہ کشورِ حسین شاد باد ہی ایک ایسا ملک جہاں کے 12فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل صحیح چل رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں آئے اس مالی بحران اور مندی کو دیکھتے ہوئے یہاں کے شہری اپنے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین ملازمت حاصل کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کا رخ کررہے ہیں جن میں سرفہرست پاکستان کا ہمسایہ بھارت ہے۔ یورپ کے ایک جریدے کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اس وقت 40سے پچاس ہزار غیر ملکی ماہرین کام کررہے ہیں۔ بھارت میں غیر ملکیوں کو ملازمت دلانے والی فرم کے منیجر نے جریدہ کو بتایا ہے کہ ’’چونکہ ہمارا ملک تیزی سے معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے جہاں ملازمتوں کے ا علیٰ مواقع دستیاب ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے ماہرین انڈیا کو ملازمت کیلئے ترجیح دے رہے ہیں اورگزشتہ سال کے مقابلے میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد میں 15 سے 20فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘‘۔ بھارت میں امریکی اور یورپی ماہرین کو بالخصوص بنکنگ، مالیاتی اداروں، آٹو موبائل، فارما، ریٹیل سیکٹر اور آئی ٹی ماہرین کو خدمات کیلئے منتخب کیا جاتا ہے۔ ان ماہرین (بالخصوص آئی ٹی ماہرین) کو 40لاکھ روپے سے ایک ارب 25لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ مغربی ممالک اور امریکہ میں اقتصادی بحران کی وجہ سے وہ نوکریوں کے لیے بھارت کا رخ کررہے ہیں۔ بہت ساری کمپنیوں، اداروں اور آرگنائزیشنوں نے بجٹ کی کمی کی وجہ سے اپنے دفاتر بھارت منتقل کر دیئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار اور اچھے مستقبل کے لیے امریکہ اور یورپ کا رخ کرتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ امریکہ اور یورپ خود معاشی اور مالی ابتری کا شکار ہیں۔ اب ان ممالک کے تعلیم یافتہ، ڈگری یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار حاصل کرنے کے لیے بھارت کا رخ کررہے ہیں یعنی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے بعد حالات کے خلاف شکایت نہ کیجیے بلکہ نئے حالات کے مطابق اس کا نیا حل سوچیے۔