امریکہ کی مسلم تنظیموں نے امریکی صدر بارک اوباما سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے زکوٰۃ کی شکل میں دوسروں کی امداد اور خدمت خلق کے حق کو بحال کریں اور اس تعلق سے سابق امریکی صدر جارج بش نے جو پالیسی بنائی تھی اس کا ازالہ کریں۔ مسلمان اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ زکوٰۃ کی بنیاد پر افراد یا جماعت میں سے کسی کی مدد کریں گے تو انہیں دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے جرم میں پکڑلیا جائے گا یا پریشان کیا جائے گا۔ امریکہ کی دواسلامی تنظیموں’’امپنیک ‘‘ اور ’’احنا‘‘ نے ایک خط لکھ کر صدر اوباما کی توجہ اس معاملے کی طرف مبذول کرائی ہے کہ امریکی اسلامی تنظیموں کی کونسل‘ جو نفع حاصل کرنے کی بنیاد پر کام نہیں کرتی‘ کو اس اتہام کی بنیاد پر بند کردیا گیا تھا کہ اس کی رکن تنظیمیں انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مالی مددفراہم کرتیں ہیں۔ اسلامی تنظیموں نے اپنے طورپر بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ امریکی وزیرخزانہ کو اپنے بے ضرر ہونے کی یقین دہانی کراسکیں۔ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں نے اس امریکی قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے جس کے ذریعے کسی غیر ملک یا فلاحی ادارے کی مدد کرنے پر دہشت گردی کے قانون کے تحت جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنا اسلام میں فرض ہے مگر اس قانون کے باعث ان کی اس عبادت کے حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ شہری حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دہشت گردتنظیموں کو مددفراہم کرنے کا امریکی قانون اتنا غیرواضح اور پیچیدہ ہے کہ اس کی وجہ سے افراد اور تنظیمیں اپنی مالی امداد کے استعمال کا ریکارڈ رکھنے کا ناممکن کام سرانجام نہیں دے سکتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی مسلمان دوسرے مسلمان ملکوں میں خیرات کے طورپر رقم بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں یہ رقوم دہشت گردی کے ساتھ منسلک قرار نہ دے دی جائیں۔ ایسا صرف روپے پیسے کے معاملے میں نہیں بلکہ کسی بھی طرح کی مدد اس قانون کی زد میں آسکتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم ’’کراماہ‘‘ سے وابستہ وکیل ابوسی کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم افغانستان میں لڑکیوں کے سکول کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن ہمیں یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ اس کی مدد کرنا قانونی طورپر صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ ہم اس منصوبے پر سرے سے عمل ہی نہ کرسکے۔ امریکہ کے مالیاتی قوانین بلکہ خود امریکی آئین کے مطابق امریکی حکومت یا اس کے کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امریکی شہریوں سے ان کے مذہبی تشخص کی بنیاد پر غیرمساوی سلوک کرے‘ مذہب کی بنیاد پر ان پر پابندیاں عائد کرے یا ان کی آمدنی کے ذرائع اور وسائل معلوم کرے ( یہ الگ بحث ہے کہ زکوٰۃ کا نظام مغرب کی نظر میں ایک متنازعہ مسئلہ ہے ) پھر کیا سبب ہے کہ امریکہ کے لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے مالیاتی ادارے، سیکورٹی ادارے اور دوسرے سرکاری وغیرسرکاری ادارے مذہبی بنیاد پر غیرمساوی سلوک کررہے ہیں ؟ اس کا واضح جواب میری نظر میں یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ہرمسلمان وہاں مشکوک ہوگیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ میں آج محمد ، احمد، علی اور اس جیسے دوسرے اسلامی ناموں والے افراد سے غیرمعمولی احتیاط برتی جاتی ہے اور ہرموقعہ پر ان کو اپنی شناخت کی تصدیق کرانے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی مسلمانوں کی قومی سطح پر نمائندگی کرنے والی تنظیم ’’کونسل آف امریکن مسلم ریلیشنز ‘‘ نے رقوم کی ترسیل کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلاوجہ مسلمان گاہکوں کو ہراساں اور ان کی رقوم ضبط کررہی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے کچھ عرصہ سے مسلمان شہریوں کی طرف سے ان کی رقوم کو ناجائز ذرائع کی آمدن کہہ کر ضبط کیے جانے کی شکایت موصول ہورہی ہیں۔ اس کمپنی نے محمد، احمد، علی اور خان جیسے ناموں کے حامل افراد سے ان کے مذہب رہائش، کاروبار، ذریعہ آمدن اور قومی شناخت کے بارے میں پوچھ گچھ کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ تنظیم نے اسے ’’مذہبی پروفائلنگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس کمپنی کا اربوں ڈالر کاکاروبار دنیا کے سو سے زائد ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ رقوم ضبط کیے جانے کے واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے تنظیم کی ایک عہدہ دار جوان حسن نے بتایا کہ چند روز قبل ایک سیاہ فام امریکی محمد علی نے جب نیویارک سے شکاگو میں اپنے ایک رشتے دار کو بھجوانے کے لیے رقم اس کمپنی کی ایک شاخ میں جمع کرائی تو کچھ ہی گھنٹے بعد انہیں کمپنی کے ایک اہل کار نے فون کیا اور کہا کہ چونکہ ان کا نام محمد ہے اس لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنی تصویر مہیا کریں۔ محمد علی نے جواباً احتجاج کیا اور کہا کہ وہ رقم واپس لینا چاہیں گے لیکن کمپنی نے ان کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تصویر دیے بغیر وہ اپنی رقم واپس نہیں لے سکتے۔ اس کمپنی کی ترجمان وینڈی ہربرٹ نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ محمد علی کی رقم ضبط کیے جانے کا عمل امریکی قوانین اور قواعد کے مطابق ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا ان قواعد کا اطلاق صرف محمد، احمد، علی اور خان نامی لوگوں پر ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ رقوم کی ترسیل کا کاروبار وزارت خزانہ سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے؛ تاہم اس نے اعتراف کیا کہ اس کے پاس حکومت کی طرف سے دی گئی ایک ’’واچ لسٹ‘‘ موجود ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ جب کمپیوٹرسسٹم کسی گاہک کے واچ لسٹ میں درج نام کی شناخت کرتا ہے تو قانون کے مطابق ان پر لازم ہے کہ وہ اس گاہک کی رقم ضبط کرلیں۔ ترجمان وینڈی ہربرٹ نے مزید بتایا کہ ان کی کمپنی پیٹریاٹ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے بھی رقم بھیجنے والے افراد کی چھان بین کرتی تھی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکی کانگریس نے جب پیٹریاٹ ایکٹ پاس کیا تو ہمیں حکم دیا گیا کہ رقوم بھیجنے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ حکومت کی ’’واچ لسٹ‘‘ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں شامل کریں۔ یہی وجہ تھی کہ محمدعلی کا پہلا اور آخری نام (محمداور علی) واچ لسٹ میں شامل تھا تاہم مسٹر محمد علی کی تصویر مہیا کرنے کے ایک دن بعد ان کی رقم واپس لوٹا دی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ آٹھ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے دوتہائی مسلمان بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل آف امریکن مسلم ریلشنز کے ارکان رقوم کی ترسیل کی ذمہ دار کمپنیوں سے ایسے واقعات کی وضاحت طلب کررہے ہیں اور ان ناخوشگوار واقعات کی روک تھام پر زور دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں جب نجی طورپر کام کرنے والے مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کو امریکی حکومت نے ’’مسلم شناخت والے افراد‘‘ کی سخت جانچ پڑتال کی ہدایت کررکھی ہے اور ان کو ایسے ناموں کی لسٹ بھی فراہم کررکھی ہے تو خود حکومت کے سرکاری محکموں اور اداروں میں کیا ہورہا ہوگا۔ ایک امریکن اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے گزشتہ دنوں سان فرانسسکو میں مسلم ایڈووکیٹس نامی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں عرب امریکیوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔ آخر میں میرے لیے یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ صدر بارک اوباما نے اپنی قاہرہ میں کی گئی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے کے معاملے میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ لیکن کب؟ یہ انہوں نے نہیں بتایا۔